اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) روزنامہ جنگ میں انصار عباسی کی شائع خبر کے مطابق وزیراعظم کے ایک معاون خصوصی نے جمعرات کو متحدہ عرب امارات کے وزیر کے حوالے سے اس بات کی دو ٹوک الفاظ میں تردید کی ہے کہ پاکستانی ملازمین کیلئے ملازمت یا ورک ویزا بند کر دیا گیا ہے۔
اپنی ٹوئیٹ میں انہوں نے کہا کہ ہم اماراتی وزیر برائے وسائل اور اماراتائزیشن ناصر بن ثانی الحامل کے مشکور ہیں کہ وہ مسلسل اوور سیز پاکستانیوں کے معاملے میں حمایت کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا اطلاعات کے برعکس متحدہ عرب امارات کے وزیر نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ پاکستانی ورک فورس (افرادی قوت) کی برآمد پر کوئی پابندی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی ملازمین میں 11 فیصد اضافہ ہوا ہے، کورونا وائرس کی وبا کے دوران جن افراد نے ورچوئل لیبر مارکیٹ ڈیٹابیس میں رجسٹر کرایا تھا انہیں ترجیح دی گئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ 10 سال کی گولڈن ویزا درخواستوں پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانیوں کے مسائل کے حل کیلئے ہم متحدہ عرب امارات کی قیادت کے ساتھ تعاون کے منتظر ہیں۔ لیکن سینیٹر انور بیگ، جن کا خاندان دہائیوں سے افرادی قوت کی برآمد کا کام کر رہا ہے۔اصرار کرتے ہیں کہ یہ جان کر حیرت ہوئی کہ پاکستانیوں کے ورک ویزے پر پابندی نہیں، لیکن بدقسمتی سے
یہ درست بات نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ 18 نومبر 2020ء سے یہ پابندی عائد کی گئی ہے اور اُس وقت سے لیکر اب تک کسی پاکستانی کو ورک ویزا جاری نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ بھی پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں موجود
اپنے پروٹیکٹوریٹس سے تصدیق کر سکتا ہے کہ 18 نومبر کے بعد سے کسی پاکستانی کو ورک ویزا جاری ہوا ہے یا نہیں۔ انور بیگ نے کہا کہ میں اپنے بیان پر قائم ہوں، میں ایک مرتبہ پھر اپنی بات دہراؤں گا کہ وزیراعظم عمران خان کو مسئلہ حل کرنے کیلئے اس معاملے میں مداخلت کرنا ہوگی۔
رابطہ کرنے پر بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کے ڈائریکٹر جنرل نے بھی اماراتی وزیر کے ساتھ ٹیلی فونک بات چیت کا حوالہ دیا اور کہا کہ اماراتی وزیر نے واضح الفاظ میں تردید کی ہے کہپاکستانی ورکرز کے ورک ویزا پر پابندی ہے۔ اس سے پہلے جب اس نمائندے
نے ڈی جی سے بات کی تھی تو انہوں نے کہا تھا کہ متحدہ عرب امارات نے پاکستان سمیت 13 ممالک کیلئے ہر طرح کے ویزے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ انہوں نے گزشتہ ہفتے دفتر خارجہ کی طرف سے جاری کردہ بیانکی طرف توجہ مبذول کرائی اور بتایا کہ ویزوں کے اجراء پر
یہ پابندی کورونا وائرس کی وجہ سے عائد کی گئی ہے۔ تاہم، دفتر خارجہ کے ترجمان نے بدھ کو وزٹ ویزوں کی معطلی کے حوالے سے بات کی تھی۔ دفتر خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ کا کہنا تھا کہ امارات نے کسی نئے اعلان تک پاکستان سمیت درجن بھر ممالک کیلئے وزٹ
ویزوں کا اجراء معطل کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خیال ہے کہ کورونا کی دوسری لہر کی وجہ سے یہ فیصلہ کیا گیا ہے، ہم اماراتی حکام سے اس معاملے میں باضابطہ تصدیق کر رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستانی حکام اس معاملے پر چاہے کچھ بھی
کہہ رہے ہوں، خبر رساں ادارے رائٹرز نے بدھ کو خبر دی تھی کہ پاکستان سمیت 13 ممالک کے لوگوں کیلئے نئی ملازمت اور وزٹ ویزوں کا اجراء معطل کر دیا گیا ہے۔ مقامی اور بین الاقوامی میڈیا نے رائٹرز کی اس خبر کو کوریج دی تھی اور اس میں ریاستی ملکیت سمجھے جانے والے ایک
بزنس پارک کی دستاویز میں بتایا گیا تھا کہ متحدہ عرب امارات نے 13 ممالک کیلئے نئے ویزوں کا اجراء بند کر دیا ہے؛ ان ممالک میں سے بیشتر مسلم ہیں۔ یہ دستاویز بزنس پارک میں کام کرنے والی کمپنیوں کو ارسال کیا گیا تھا اور رائٹرز نے بھی یہ دستاویز دیکھی ہے، اس امیگریشن سرکلر پر 18 نومبر
سے اطلاق ہوا۔ اسی دوران ایک دستاویز موصول ہوئی ہے جو مبینہ طور پر دبئی ایئرپورٹ فری زون کا ہے جس میں پاکستان سمیت 13 ممالک کیلئے 18 نومبر سے وزٹ اور ورک ویزا پر پابندی کی بات کی گئی ہے۔ یہ صورتحال پریشان کن ہے کیونکہ پاکستانی حکام کے بیانات سے معلوم
ہوتا ہے کہ ان کے پاس اس پابندی کے حوالے سے تحریری طور پر کوئی معلومات نہیں ہیں۔ دفتر خارجہ نے اگرچہ یہ بتایا تھا کہ پابندی وزٹ ویزا پر عائد کی جا رہی ہے لیکن اسے بھی وجہ کا علم نہیں تھا اور قیاس ظاہر کیا گیا کہ وجہ کورونا وائرس ہو سکتا ہے۔
بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کے ڈائریکٹر جنرل کی رائے تھی کہ پابندی ورک ویزا پر بھی ہے۔ اب معاون خصوصی اور ڈی جی نے اماراتی وزیر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ کوئی پابندی نہیں۔ زمینی صورتحال کیا ہے؟ کیا اماراتی حکام نے 18 نومبر کے بعد کوئی
نیا ورک ویزا جاری کیا ہے؟ ذریعے کا کہنا تھا کہ اس سوال کا جواب گتھی سلجھا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ دفتر خارجہ کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا تھا کہ ”ہمیں معلوم ہوا ہے کہ متحدہ عرب امارات نے عارضی طور پر 12 ممالک بشمول پاکستان کیلئے نئے وزٹ ویزے نئے اعلان
تک جاری کرنا بند کر دیے ہیں۔ یہ عارضی پابندی پہلے سے جاری کردہ ویزوں پر نہیں ہے۔ خیال ہے کہ یہ پابندی کورونا کی دوسری لہر کی وجہ سے عائد کی گئی ہے۔ ہم اس معاملے میں اماراتی حکام سے باضابطہ تصدیق حاصل کر رہے ہیں۔“تا ہم کابینہ کے اپنے ہی ساتھی کی جانب
سے دوست عرب ملک کی پاکستان پر عائد کردہ پابندی کی تردید کے چند گھنٹے بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے جمعرات کو متحدہ عرب امارات کی جانب سے ورک ویزا پر عائد کردہ پابندی کے حوالے سے ہماری خبر کی تصدیق کی ہے۔