اسلام آباد(آن لائن)سپریم کورٹ نے جسٹس فائز کیس میں ریمارکس دیئے کہ ریفرنس غلط ثابت ہوا تو حکومت کیخلاف کارروائی ہوگی ،ججز اور حکومت احتساب سے بالاتر نہیں ۔حکومتی وکیل فروغ نسیم نے کہا کہ بھارت میں جج کو 6 لاکھ کی وضاحت نہ کرنے پر گھر بھیج دیا گیا، کسی کا اپنے یا اہلیہ کے نام جائیداد ظاہر نہ کرنا قابل سزا جرم ہے۔
جسٹس عمر بندیال نے حکومتی وکیل سے کہا کہ کیا آپ کا یہی مقدمہ ہے؟آپ جو دلائل دے رہے ہیں یہ آپ کا مقدمہ ہے ہی نہیں۔جسٹس عمر نے کہا کہ کسی فورم پر یہ ثابت کریں کہ اہلیہ کو جائیداد خریدنے کے لیے جج نے پیسے دیے جس پر حکومتی وکیل نے کہا کہ میں آپ کا بہت احترام کرتا ہوں، 15 سال سے ہمارا عزت و احترام کا رشتہ ہے، جس پر جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ احترام کا یہ رشتہ برقرار رہے گا، سب چاہتے ہیں کیس کا جلد فیصلہ ہو۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک اجازت ملنے پر سپریم کورٹ میں تحریری جواب جمع کرادیا۔پیر کے روز سپریم کورٹ میں جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں دس رکنی لارجر بنچ نے سماعت کی ۔ سماعت کے آغاز پر حکومتی وکیل نے اپنے دلائل شروع کئے ،جسٹس مقبول باقر نے سرکاری وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ بتائیں کونسل کے سامنے جج کیخلاف آمدن سے زائد ذرائع کا مواد کیا تھا، کسی فورم پر یہ ثابت کریں کہ اہلیہ کو جائیداد خریدنے کیلئے جج نے پیسے دیئے۔وکیل فروغ نسیم نے کہا کہ آرٹیکل 209کے مقدمے میں اہلیہ کو زیر کفالت یا خود کفیل رکھنا بلا جواز ہے۔ کسی کا اپنے یا اہلیہ کے نام جائیداد ظاہر نہ کرنا قابل سزا جرم ہے، آرٹیکل 63 کے تحت جائیدادیں ظاہر نہ کرنے والا رکنیت سے محروم ہوجاتا ہے۔
جسٹس مقبول باقر نے پوچھا کہ فروغ نسیم صاحب کیا آپ کا یہی مقدمہ ہے؟ جو دلائل آپ دے رہے ہیں یہ آپ کا مقدمہ نہیں ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ کی دلیل یہ تھی کہ ہمارا مقدمہ شوکاز نوٹس جاری ہونے کا ہے۔ آپ کا نقطہ یہ تھا مواد کونسل کے سامنے آنے کے بعد باقی چیزوں کی اہمیت نہیں رہی۔ حکومتی وکیل نے کہا کہ افتخار چوہدری کیس کا اطلاق موجودہ مقدمے پر نہیں ہوتا، وضاحت دینی ہے کہ پراپرٹیز کیسے خریدی؟
جسٹس صفدر علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ ججز احتساب سے بالاتر نہیں اور نہ ہی حکومت ہے ،ججز کیخلاف ریفرنس غلط ثابت ہوا تو حکومت کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے ۔ جسٹس منصور شاہ نے پوچھا کہ اہلیہ کو اپنے والدین سے کچھ ملے تو کیا وہ بتانا بھی خاوند کی ذمہ داری ہے ؟جسٹس باقر نے کہا کہ کسی عمارت کی بنیاد غلط ہو تو غلط ڈھانچے پر عمارت کھڑی نہیں ہوسکتی۔فروغ نسیم نے کہا کہ اہلیہ کے اثاثے آمدن سے زائد ہیں۔ جسٹس منصور شاہ نے پوچھا کہ اثاثے آمدن سے زیادہ ہیں تو اس کا تعین کس فورم پر ہوگا۔
فروغ نسیم نے جواب دیا کہ سروس آف پاکستان کے تحت یہ جواب خاوند نے دینا ہے۔جسٹس منیب اختر نے پوچھا کہ آپ کا مقدمہ پراپرٹیز کی ملکیت سے ہے۔ کسی کے رہن سہن انداز کا مقدمہ آپ کا نہیں، ریفرنس میں منی لانڈرنگ اور فارن ایکسچینج کی منتقلی کی بات کی گئی۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ایسا کون سا ریکارڈ ہے جس سے اہلیہ کے اثاثے آمدن سے زیادہ لگتے ہیں؟جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہمارے ملک میں 1990 کے بعد ایسا میکانزم بنایا گیا جس کے تحت کوئی حساب نہیں ہے۔ الزام یہ ہے کہ لندن کی جائیدادیں کیسے خریدی گئی۔
آرٹیکل 10 اے پر بھی مطمئن کریں، صدارتی ریفرنس میں تشویش جائیداد خریدنے کے ذرائع ہیں، جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ اگر تسلیم کر لیں تو پھر تمام ججز سے ٹیکس کا جوڈیشل کونسل پوچھے گی؟وکیل نے کہا کہ جوڈیشل کونسل جج کے ٹیکس گوشواروں کا جائزہ لے سکتی ہے۔ جسٹس منصور شاہ کہا کہ اگر ایف بی آر کہہ دے کہ اہلیہ نے جائیدادیں اپنے وسائل سے حاصل کی ہے تو پھر صورتحال کیا ہوگی۔جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ آپ کا مقدمہ ٹیکس قانون کے آرٹیکل 116 کے خلاف ورزی کا ہے، آپ تو ٹیکس قانون کے ماسٹر ہیں۔
سرکاری وکیل نے کہا کہ ہمارا مرکزی مقدمہ کن وسائل سے یہ جائیدادیں خریدی گئی، آرٹیکل 116 کے خلاف ورزی ایک چھوٹا سا نکتہ ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا اس بات کا امکان ہے کہ ایف بی آر اہلیہ سے ذرائع پوچھ لے؟ وکیل نے کہا کہ ایف بی آر پوچھے اور اہلیہ جواب دے دیں تو کیس ختم ہو جائے گا۔جسٹس منصور شاہ نے کہا کہ پھر اس بات پر اصرار کیوں کر رہے ہیں کہ جواب قاضی فائز عیسی ہی دیں؟وکیل نے کہا کہ جج کیخلاف ڈسپلنری کارروائی کونسل کر سکتی ہے۔جسٹس عمر عطا نے کہا کہ اس مقدمے میں 9 ماہ گزر چکے ہیں۔
وکیل فروغ نسیم نے کہا کہ یہ نہیں ہوسکتا کہ سروس آف پاکستان کے ملازم کے بچے رولز رائس گاڑی چلائیں، اگر 1969 کا قانون اتنا برا تھا تو اٹھارویں ترمیم میں پارلیمنٹ ختم کر دیتی۔جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے وکیل منیر اے ملک نے کیس کی وقفے کے بعد دوبارہ سماعت شروع ہونے پر پوچھا کہ حکومتی وکیل ٹائم لائن دے دیں کب تک دلائل مکمل کریں گے؟بینچ کے سربراہ نے کہا کہ تسلیم کرتے ہیں ایک جج پر سوال اٹھے تو پورے ادارے پر سوال اٹھتے ہیں۔ فروغ نسیم نے کہا کہ انڈیا میں 6 لاکھ کی وضاحت نہ کرنے پر جج کو گھر بھیج دیا گیا۔
اسی مقدمے کی بنیاد پر بھارت میں عدالتی تاریخ رقم ہوئی۔وکیل نے کہا کہ انڈیا میں جج کے خلاف فوجداری کارروائی کو الگ رکھا گیا۔ جسٹس باقر نے کہا کہ انڈیا میں جج کیخلاف کارروائی کے وقت مکمل مواد پیش کیا گیا۔جسٹس منصور شاہ نے پوچھا کہ کیا جج صاحب ایف بی آر سے اپنی اہلیہ کا ٹیکس ریکارڈ لے سکتے ہیں، اگر ایف بی آر راز داری کی وجہ سے جج صاحب کو اہلیہ کا ریکارڈ نہیں دے گا تو جج انضباطی کارروائی کا سامنا کیسے کرے گا، اگر ایف بی آر خاوند کو اہلیہ کے گوشوارے یا ٹیکس معلوم دینے سے انکار کر دے تو پھر راستہ کیا ہوگا؟
وکیل نے کہا کہ اس سوال کا تفصیلی جواب دوں گا۔ جسٹس شاہ نے کہا کہ ابھی سوال کا جواب دے دیں۔ وکیل نے کہا کہ مجھے متعلقہ قوانین کو دیکھنا ہوگا پھر جواب دینے کی پوزیشن میں ہوں گا۔دس رکنی لارجر بنچ کے سربراہ جسٹس عمر عطاء بندیال نے سرکاری وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کا اپنے دلائل مکمل کرنے کیلئے کتنا وقت درکار ہے،ابھی تک آپ اپنے پہلے نقطے پر ہی اٹکے ہوئے ہیں ۔جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ اگر پورا دن ملتا رہا تو دو دن مزید درکار ہوں گے۔جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ لگتا نہٰں کہ آپ دو دن میں اپنے دلائل مکمل کر لیں ۔بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت کل تک کیلئے ملتوی کر دی ۔