لاہور( این این آئی)وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے سماجی تحفظ اور احساس کیش پروگرام کی سربراہ ثانیہ نشتر نے کہا ہے کہ خلیجی ممالک سے نوکریاں ختم ہونے کے باعث وطن لوٹنے والوں کو احساس پروگرام میں شامل کرنے کے بارے میں سوچا جا رہا ہے اور اس بارے میں حتمی فیصلہ وفاقی کابینہ کرے گی۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے کہا کہ ایمرجنسی کیش ٹرانسفر میں اور بھی بہت لوگ آ سکتے ہیں۔ ہمیں بہت ساری درخواستیں مختلف وزارتوں سے موصول ہو رہی ہیں جو چاہتے ہیں کہ ان کو اس فہرست میں شامل کیا جائے،ہم ہر فہرست کو اپنے اصولوں کے مطابق پرکھ رہے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ موجودہ پروگرام تین حصوں میں بٹا ہوا ہے جو عید کے بعد ختم ہو جائے گا لیکن نچلے طبقے کے افراد کی مالی مدد کا عمل چلتا رہے گا،اس کے بعد اگر حکومت کو ضرورت محسوس ہوتی ہے تو مزید لوگوں کو شامل کیا جا سکتا ہے۔انہوںنے کہا کہ حال ہی میں اجرا ء ہونے والے احساس ایمرجنسی کیش پروگرام کو 144 ارب روپے کی بنیاد پر بنایا گیا ہے،اس پروگرام کے ذریعے ایسے لوگوں کی مالی معاونت کی جائے گی جن کی نوکریاں کورونا وائرس کی وبا کے باعث متاثر ہوئی ہوں۔ثانیہ نشتر نے بتایا کہ اس پروگرام کے ذریعے ایک کروڑ 20 لاکھ خاندانوں تک پہنچا جائے گا جن میں فی خاندان 12 ہزار روپے مختلف درجہ بندیوں کے تحت بانٹے جائیں گے،ان میں دیہاڑی پر کام کرنے والے اور مزدور سر فہرست ہیں۔ثانیہ نشتر نے کہا کہ پاکستان لیبر فورس سروے کے مطابق دو کروڑ 40 لاکھ ایسے لوگ ہیں جو یا تو دیہاڑی پر یا پر پیِس ریٹ کماتے ہیں۔
ان دو کروڑ 40 لاکھ افراد کا روزگار کورونا وائرس کی وجہ سے بہت بری طرح سے متاثر ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ مردم شماری میں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ایگ گھر میں تقریباً چھ اعشاریہ پانچ افراد ہوتے ہیں تو اس طرح اگر اندازہ لگایا جائے تو یہ تعداد ملک کی آبادی کا دو تہائی بنتی ہے یعنی 16 کروڑ سے زیادہ ایسے لوگ ہیں جن کا گزر بسر دیہاڑی اور پر پیِس ریٹ پر ہوتا ہے۔ان درجہ بندیوں میں کفالت پروگرام کے تحت 45 لاکھ موجودہ صارفین کو ماہانہ دو ہزار روپے کے ساتھ ساتھ اگلے چار ماہ کے لیے ایک ہزار روپے کی اضافی رقم دی جائے گی۔
دوسرے درجے میں شامل ہونے والے افراد کو 12 ہزار روپے کی ماہانہ رقم یک مشت ادا کی جائے گی،اس کے علاوہ ایس ایم ایس مہم شامل ہے جس کے ذریعے لوگ 8171 پر ایس ایم ایس بھیج کر پروگرام میں شامل ہونے کی اپنی اہلیت جان سکیں گے،جو لوگ اہل ہوں گے انہیںایس ایم ایس کے ذریعے رقم وصول کرنے کی اطلاع دی جائے گی،اندازا ً40 لاکھ افراد قومی و سماجی اعداد و شمار کے ذریعے اور 35 لاکھ افراد ضلعی انتظامیہ کے تعاون سے شامل کیے جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ جن لوگوں کے کوائف کی تصدیق قومی سماجی و معاشی سروے کے ذریعے نہیں ہو سکے گی ان کو ضلعی انتظامیہ سے رابطہ کرنے کا کہا جائے گا اور ضلعی انتظامیہ سے تصدیق شدہ افراد کو ہی شامل کیا جائے گا جبکہ ان تمام افراد کی تصدیق نادرا کی مدد سے کی جائے گی۔
ثانیہ نشتر نے کہا کہ اس کے لیے ہم نے نادرا اور بینکوں سے تعاون مانگا ہے جس کے ذریعے لوگ بایومیٹرک نظام کے تحت اپنی رقوم وصول کر سکیں گے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ایک منظم نظام لانے اور اس کو باقاعدگی سے چلانے کی ضرورت ہیلیکن اسی طرح کا ایک نظام بینظیر اِنکم سپورٹ پروگرام بھی تھا جو موجودہ حکومت میں تبدیل کیا گیا۔سب سے پہلے تو یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ بینظیر اِنکم سپورٹ پروگرام کو تبدیل نہیں کیا گیا ہے۔ بِسپ ویسے ہی ایک حکومتی ادارہ ہے جیسے پی ٹی اے اور اوگرا ہے۔لوگ اس لیے پریشانی کا شکار ہیں کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ بِسپ کا نام تبدیل کرکے احساس رکھ دیا گیا ہے۔
ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ جو لوگ پالیسی اور حکمت عملی کو سمجھتے ہیں وہ یہ جانتے ہیں کہ احساس ایک حکمتِ عملی کے تحت کام کر رہا ہے۔ثانیہ نے بتایا کہ اس وقت کورونا ریلیف فنڈ کے ذریعے ایک کھرب کے پیکج میں سے احساس پروگرام کے لیے 144 ارب روپے کا پیکج انھیں ملا تھاجس کے ذریعے ایک کروڑ 20 لاکھ خاندانوں کو رقم دی جا رہی ہے اور صرف احساس ہی نہیں بلکہ اس سے منسلک دیگر پروگرام کو بھی کورونا وائرس کے تناظر میں دیکھنا ہے۔انہوں نے کہا کہ جیسے ہمارا بلا سود قرضے کا پروگرام، احساس آمدن پروگرام، سکالرشپ پروگرام یا احساس لنگر اور راشن ہے۔ ان تمام پروگرامز کو اب ہمیں نئے سِرے سے تشکیل دینا ہے۔