اسلام آباد (آن لائن) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کورونا سے جو صورتحال ہے اس کی پہلے مثال نہیں ملتی، عوام کو بتاتا چاہتے ہیں کہ دنیا میں کورونا سے کیا حالات ہیں، اللہ کا شکر ہے بڑے نقصان سے بچ گئے ہیں، پولیس عوام کو ڈنڈے مارنے کے بجائے لاک ڈاؤن سے متعلق سمجھائے، ذخیرہ اندوزی کرنیوالوں کیخلاف سخت کارروائی ہوگی، آرڈیننس کے ذریعے سمگلرز کیخلاف بھی سخت کارروائی کی جائے گی،
گندم سمگل اور مصنوعی مہنگائی کرنیوالوں کو معاف نہیں کیا جائے گا، اس وقت سب سے زیادہ خطرہ کورونا کے بجائے غربت ہے،امریکا اور برطانیہ کے مزدور100 فیصد رجسٹرڈ ہیں، پاکستان میں مزدوروں کا ڈیٹا ہی نہیں،ایک طبقہ چاہتا ہے، لوگ مریں اور وہ سیاست کریں، دو روز قبل سنا کراچی میں کورونا سے زیادہ اموات ہورہی ہیں،ایسی خبروں سے خوف پھیلے گا، یہ غیرذمہ درانہ عمل ہے، کہا گیا کہ حکومت اموات کو چھپا رہی ہے، درخواست ہے کورونا پر سیاست بند ہونی چاہیے،اگر غربت بڑھی تو ہم جنگ ہار جائیں گے، اوپر والے طبقات کو فرق نہیں پڑتا، اصل فرق چھوٹے لوگوں کو پڑے گا، ہمارا چیلنج یہ ہے کہ کورونا کے بعد غریب لوگوں کے حالات کیسے ہوں گے؟چین کی مثال اس لیے دیتا ہوں کہ چین نے وہ کیا تو ریاست مدینہ میں کیا گیا تھا۔ ہمارے نبیﷺ نے ریاست مدینہ میں بھی کمزور لوگوں کو اوپر اٹھایا گیا تھا۔ انہوں نے وفاقی وزراء کے ہمراہ میڈیا بریفنگ میں کہا کہ قوم کو مبارک دیتا ہوں اور اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ ہمارے نیشنل کمانڈ کنٹرول سنٹر نے اندازہ لگایا ہوا تھا کہ 25 اپریل تک 50 ہزار مریضوں کا اندازہ تھا، لیکن اب اندازہ ہے کہ12تا 15 ہزار مریض ہوں سکتے ہیں۔ان میں تشویشناک مریضوں کیلئے کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔اب ہمیں زیادہ مشکل مئی میں پڑے گی۔ہسپتالوں پر جو پریشر 25 اپریل تک پڑنا تھا وہ اب آگے مئی تک چلا گیا ہے۔ اگر ہم زیادہ احتیاط کریں تو یہ عرصہ مزید آگے جاسکتا ہے۔ ہم خوش قسمت اس لیے ہیں کہ اگر دنیا کا موازنہ کیا جائے تو ہمارے حالات بہت بہتر ہیں۔
یہ اس لیے ہے کہ جب پاکستان میں 26 فروری کو پہلا کیس آیا اور ابھی 26 کیسز تھے تو ہم نے 13مارچ کو لاک ڈاؤن کردیا، اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے زائرین بھی آئے لیکن وائرس پھیلا نہیں۔اللہ کا شکر ہے کہ چین سے ایک کیس بھی رپورٹ نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ ہم لاک ڈاؤن کی سختی کم کرنے لگے ہیں، کیونکہ ہم کنسٹرکشن سیکٹر کھولنے لگے ہیں۔کیونکہ ہمارے جیسے ممالک،ہندوستان، پاکستان، فلپائن اور دوسرے ممالک کو دیکھیں تو ہمارے یورپ امریکا سے حالات مختلف ہیں،
ہماری کچی آبادیوں میں ایک ایک کمرے میں لوگ جڑ کر رہتے ہیں۔اس لیے لاک ڈاؤن کرتے وقت غریبوں کا ضرور سوچنا چاہیے۔ کورونا سے بڑا خطرہ غریب عوام کی بھوک ہے۔ لوگ بھوک سے سڑکوں پر آگئے تو لاک ڈاؤن کا مقصد ختم ہوجائے گا۔ کنسٹرکشن انڈسٹری میں لوگوں کو شرکت کا کہا تاکہ بھوک سے بچ جائیں۔ لاک ڈاؤن کا فیصلہ کرتے وقت غریب لوگ ذہن میں تھے۔ انہوں نے کہا کہ ایک ایسا طبقہ ہے جو چاہتا ہے کہ کورونا سے زیادہ لوگ مریں اور وہ اپنی سیاست چمکائیں۔
دو روز قبل سنا کراچی میں کورونا سے زیادہ اموات ہونا شروع ہوگئی ہیں، ایسی خبروں سے خوف پھیلے گا۔ یہ غیرذمہ درانہ فعل ہے۔ کہا گیا کہ حکومت اموات کو چھپا رہی ہے۔ حکومت اگر کیسز کو چھپائے گی تو کیا کیسز رک جائیں گے؟ ہم نے تو پہلے دن سے جو کچھ بھی کیا، وہ سب کے سامنے ہے۔ کورونا کے معاملے پر سیاست بند ہونی چاہیے۔ ایک کورونا سنٹربنایا ہوا ہے، اس پر جاکر سارا ڈیٹا دیکھا جاسکتا ہے، کیسے ممکن ہے اگر ایک بات پر اتفاق ہوجاتا ہے، لیکن بعد ان کی لیڈرشپ دوسرے بیانات دے دیتے ہیں۔اللہ کا شکر ہے کہ کورونا ابھی تیزی سے نہیں پھیلا۔ اگر پھیلتا بھی ہے تو ہمیں سیاست نہیں کرنی چاہیے بلکہ قومی بحران کی طرح مل کرنمٹنا چاہیے۔ڈاکٹر فیصل سے درخواست کرتا ہوں کہ پورے ملک میں کورونا سے اموات اور کیسز کا ڈیٹا دیکھیں۔انہوں نے کہا کہ پولیس کو کہنا چاہتا ہوں کہ لوگوں کو ڈنڈے مارنے کی بجائے کورونا سے متعلق لوگوں کو سمجھائیں۔
مساجد کے امام بھی مساجد میں جانے والے نمازیوں سے پابندی کروائیں۔انہوں نے کہا کہ ہم اپنے اوورسیز پاکستانیوں کو بھولے نہیں ہیں، صرف انتظامات کرنا چاہتے تھے، اب ان کو واپس لائیں گے، کیونکہ پہلے ہم نے تجربہ کیا جس سے کورونا پھیل گیا۔ عمران خان نے کہا کہ ہم کورونا کے خلاف کیسے جیتیں گے؟ جیت کیسی ہوگی؟ یہ 6 یا 8ماہ بعد جب بھی ختم ہوتا ہے، یہ کچھ نہیں کہہ سکتے، اگر غربت بڑھی تو ہم جنگ ہار جائیں گے، اوپر والے طبقات کو فرق نہیں پڑتا، اصل فرق چھوٹے لوگوں کو پڑے گا، ہمارا چیلنج یہ ہے کہ کورونا کے بعد غریب لوگوں کے حالات کیسے ہوں گے؟چین کی مثال اس لیے دیتا ہوں کہ چین نے وہ کیا تو ریاست مدینہ میں کیا گیا تھا۔ ہمارے نبیﷺ نے ریاست مدینہ میں بھی کمزور لوگوں کو اوپر اٹھایا گیا تھا۔اس لیے ہمیں بھی اپنے نچلے طبقات کا خیال رکھنا ہے۔انہوں نے کہا کہ میں پھر کہتا ہوں کہ مشکل وقت نے ابھی آنا ہے، ابھی تک ہمیں اللہ نے بچایا ہوا ہے، اس لیے جب ہسپتالوں میں دباؤ بڑھے گا تو وہاں ہمارے رضاکار بھی مدد کریں گے۔