راولپنڈی/اسلام آباد (این این آئی)پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہاہے کہ پی ٹی آئی ایم ایف بجٹ کو نہیں مانتے، اسے پھاڑ کر اڑا دینگے ، دباؤ کے باوجود اپنی جدوجہد سے پیچھے نہیں ہٹیں گے ، گرفتار ہوا تو آصفہ بھٹو میری آواز ہوگی،حکومت نے سفید پوش طبقے کا معاشی قتل کردیا ہے ، پھر کہتے ہیں قبر میں سکون ملے گا۔
افسوس سے کہنا پڑتا ہے معاشی، کشمیر، دہشتگردی اور سیاست کے معاملات پر اپوزیشن لیڈر اور قائد ایوان اسمبلی میں نہیں ہوتے، امید ہے اپوزیشن لیڈر ملک میں جلد ہوں گے اور اپنا کردار ادا کریں گے۔جمعرات کو پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نیب میں پیش ہوئے اور نیب ٹیم کے سوالوں کے جواب دیئے ۔قومی احتساب بیورو (نیب) راولپنڈی نے بلاول بھٹو زرداری کو جے وی اوپل کیس میں طلب کیا تھا اور ساتھ ہی ان سے زرداری گروپ آف کمپنیزکا ریکارڈ اور بورڈ آف ڈائریکٹرز کی فہرست بھی طلب کی گئی تھی۔ذرائع کے مطابق بلاول بھٹو کو نیب کی جانب سے 30 سوالات پر مشتمل سوالنامہ دیا گیا اور انہیں 2 ہفتے میں جواب جمع کرانے کی ہدایت کی گئی ہے۔نجی ٹی وی کے مطابق بلاول بھٹو الیکشن کمیشن میں جمع دستاویزات میں جے وی اوپل کے 2011 تا 2017 شیئر ہولڈر ہیں، ان کے دستخط 2011 سے2017 تک دستاویزات پر موجود ہیں۔ذرائع کے مطابق بلاول بھٹو نے نیب ٹیم کو کہا انہیں کاروباری معاملات کا علم نہیں۔بعد ازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ نیب ٹیم سے تفصیلاً گفتگو ہوئی اور انہوں نے سوالنامہ بھی دیا، سب کو پتا ہے کہ ایک سال سے پہلے چیف جسٹس نے خود کہا تھا بلاول بے گناہ ہیں تاہم میں نے اس کے باوجود خود کو نیب کے سامنے پیش کیا۔
تین مرتبہ پہلے میں بھی جواب دے چکا ہوں۔انہوں نے کہا کہ نیب کو کوئی اعتراضات نہیں تھے، اچانک پتا نہیں دسمبر میں کیا ہوا جب پہلا نوٹس بھیجا گیا، جب کراچی میں ہم نے مارچ سے ملک میں معاشی صورتحال اور پی ٹی آئی ایم ایف ڈیل کے خلاف جدوجہد کا آغاز کرنے کا اعلان کیا تو فوری نیب کا نوٹس آگیا۔چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہاکہ قانون کی حکمرانی اور اداروں کا احترام کرتے ہیں، صحیح اور غلط میں بھی ان کا احترام کرتے ہیں۔
اس لیے اعتراض کے باوجود نیب میں پیش ہوا ، جے آئی ٹی کے اپنے وکیل نے مان لیا ان کی تجاویز غلط ہیں۔بلاول نے کہا کہ جس الزام میں بلایا گیا ان کو پتا ہے میں کبھی کاروباری سرگرمی میں شامل نہیں رہا، اگر شامل بھی ہوتا اس میں پرائیوٹ ٹرانزکشن ہوتی ہے اس میں نہ حکومت کی زمین ہے اور نہ پیسہ ہے، اس میں نیب کا کوئی تعلق نہیں ہوتا، میں اس وقت پبلک آفس ہولڈر نہیں تھا تو کیا تک بنتا ہے مجھے بلاکر سوال کیا جائے۔انہوںنے کہاکہ سوالات کا جواب پہلے بھی دیا، میرا مؤقف کل جو تھا آج بھی وہی ہوگا کہ میں بے گناہ ہوں۔
یہ سیاسی انتقام کی مہم اور کردار کشی کی مہم ہے جس سے وہ جمہوری قوتوں کو بدنام کرنا چاہتے ہیں، ہماری یہ غلط فہمی تھی کہ ہم نے سوچا نیب والے ایک سال کے بچے پر کیس نہیں بنائیں گے، جب شیئر ہولڈر بنا تو سات سال کا تھا، یہ امید نہیں تھی کہ جب چیف نے کہہ دیا تب بھی ہمارے خلاف سیاسی انتقام جاری رہے گا۔چیئرمین پی پی نے کہا کہ ان کو ابھی نہیں پتا کہ دباؤ کے باوجود ہم جدوجہد سے پیچھے نہیں ہٹیں گے، خاص طور پر اس وقت جب غریب عوام پس رہے ہیں، عمران خان کو کہنا چاہوں گا کہ ہم آپ کے پی ٹی آئی ایم ایف بجٹ کو نہیں مانتے۔
اسے پھاڑ کر اڑا دیں گے۔ انہوںنے کہاکہ آپ نے سفید پوش طبقے کا معاشی قتل کردیا ہے اور پھر کہتے ہیں قبر میں سکون ملے گا۔انہوںنے کہاکہ ہم یہ ظلم اور معاشی قتل مزید برداشت نہیں کرسکتے، جو بھی دھمکی اور دباؤ ہو، پیپلزپارٹی کا کوئی کارکن پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ایک سوال کے جواب میں بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اپوزیشن لیڈرکا عہدہ قائد ایوان کے عہدے جتنا اہم ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ معاشی، کشمیر، دہشتگردی اور سیاست کا معاملہ ہو، اپوزیشن لیڈر اور قائد ایوان اسمبلی میں نہیں ہوتے۔
امید ہے اپوزیشن لیڈر ملک میں جلد ہوں گے اور اپنا کردار ادا کریں گے۔چیئرمین پیپلزپارٹی نے کہا کہ ہم گرفتاریوں کے خلاف ہیں، اگر میں گرفتار ہوا تو آصفہ بھٹو میری آواز ہوں گی۔ انہوںنے کہاکہ مجھے جس الزام میں بلایا گیا ان کو پتا ہے کہ میں کبھی اس میں ملوث نہیں رہا، میں اس وقت پبلک آفس ہولڈر نہیں تھا۔انہوںنے کہاکہ نیب کا کیا تْک بنتا ہے مجھے بلانے کا، ہمارے خلاف سیاسی انجینئرنگ کی مہم چل رہی ہے۔ انہوںنے کہاکہ مجھے امید نہیں تھی کہ ایک سال اور سات سال کے بچے پر کیس بنایا جائیگا؟۔
بلاول بھٹو کی آمد سے قبل راولپنڈی میں نیب کے پرانے ہیڈکوارٹرز کے باہر پیپلزپارٹی پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ، سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، پیپلزپارٹی کی سینیٹر شیری رحمٰن اور پیپلزپارٹی کے سیکریٹری جنرل نیئر بخاری سمیت مختلف پارٹی رہنما اور کارکنان موجود تھے۔ یاد رہے کہ خیال رہے کہ نیب کی جانب سے بلاول بھٹو کو حالیہ پیشی کا نوٹس 7 فروری کو بھیجا گیا تھا جس میں بلاول بھٹو کو زرداری گروپ کمپنی کا 2008 سے لے کر 2019 تک کا تمام ریکارڈ ساتھ لانے کی ہدایت کی گئی ہے۔
علاوہ ازاں نوٹس میں چیئرمین پیپلزپارٹی سے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی فہرست بھی طلب کی گئی ہے اس سے قبل نیب راولپنڈی نے بلاول بھٹو زرداری کو 24 دسمبر طلب کیا تھا، بلاول کے ترجمان سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے نوٹس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ بلاول بھٹو زرداری کو نیب کا نوٹس موصول ہوگیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ جب چیف جسٹس بھری عدالت میں کہہ چکے ہیں کہ بلاول بھٹو بے قصور ہیں تو نیب کا نوٹس بھیجنا انہیں ہراساں کرنے کے مترادف ہے۔اس حوالے سے بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ نیب نے انہیں 24 دسمبر کو طلبی کا نوٹس بھیجا ہے لیکن وہ پیش نہیں ہوں گے اور بعد ازاں وہ اپنے اعلان پر عمل درآمد کرتے ہوئے نیب میں پیش نہیں ہوئے تھے۔