ملک میں مہنگائی کی کیا صورت حال ہے آپ اس کا اندازہ وزیراعظم اور ارکان پارلیمنٹ کی حالت سے لگا لیجیے، وزیراعظم نے 20 جنوری کو تاجروں کے سامنے برملا کہا تھا وزیراعظم کی تنخواہ میں میرا بھی گزارہ نہیں ہوتا جب کہ ارکان پارلیمنٹ نے مہنگائی کی وجہ سے اپنی تنخواہوں میں اضافے کے لیے ایوان میں بل پیش کر دیا، آج سینٹ میں اس بل پر دھواں دار تقریریں ہوئیں، آپ سینیٹرز سے عام لوگوں کے حالات کا اندازہ لگا لیجیے، آپ مزدور، کلرک، ٹیچرز اور درمیانے درجے کے دکان داروں کو سائیڈ پر رکھ دیجیے، حالت یہ ہے ملک کے بڑے بزنس مین اور انڈسٹری
لسٹ تک بل بلا رہے ہیں، یہ ہیں اصل حالات، وزیراعظم اور ارکان پارلیمنٹ تک کا گزارہ نہیں ہو رہا لیکن سوال یہ ہے یہ صورت حال ٹھیک کس نے کرنی ہے اور کیسے اور کب کرنی ہے، جب کہ حکومت کے اتحادیوں کی ناراضی میں اضافہ ہو گیا، وزیراعظم نے جہانگیر ترین اور پرویز خٹک کی کمیٹی توڑ کر ق لیگ سے مذاکرات کی ذمہ داری گورنر چودھری سرور اور شفقت محمود کو سونپ دی جب کہ ایم کیو ایم سے مذاکرات کی ذمہ داری گورنر سندھ عمران اسماعیل، فردوس شمیم نقوی اور حلیم عادل شیخ کو دے دی گئی، یہ بحران بھی کیسے اور کب ختم ہو گا؟