اسلام آباد (این این آئی)اسلام آباد ہائی کورٹ نے پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کرنے پر گرفتار کیے گئے کارکنان کو ضمانت بعد از گرفتاری دے دی۔ پیر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پشتون تحفظ موومنٹ اور عوامی ورکرز پارٹی (اے ڈبلیو پی) سے تعلق رکھنے والے 23 کارکنان کی درخواست ضمانت پر سماعت کی۔
دوران سماعت عدالت عالیہ کے چیف جسٹس نے اسلام آباد پولیس کے سربراہ کی عدالت میں غیرحاضری پر برہمی کا اظہار کیا۔چیف جسٹس نے پوچھا کہ آئی جی کہاں ہیں انہیں بلایا تھا، جس پر ڈی آئی جی نے عدالت کو بتایا کہ وہ چھٹی پر ہیں۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ڈپٹی کمشنر کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ہمیں آپ سے اور موجودہ حکومت سے یہ توقع نہیں تھی، کیا آپ نے ایف آئی آر پڑھی ہے، دہشت گردی کی دفعات کس قانون کے تحت لگائی گئی۔انہوں نے ریمارکس دیے کہ عدالت عظمیٰ کا فیصلہ موجود ہے جس میں دہشت گردی کی تعریب بیان کی گئی ہے۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ ریاست کی نمائندگی کر رہے ہیں اور ریاست کا کام لوگوں کی حفاظت کرنا ہے، آپ کسی کے محب وطن ہونے پر کیسے شک کر سکتے ہیں؟سماعت کے دوران ان کا کہنا تھا کہ آپ کو کیا لگتا ہے کہ آئینی عدالتیں اس معاملے پر آنکھیں بند کردیں گی، اس مقدمے کی تح تک جائیں گئے، اگر حکومت نے کچھ غلط کیا ہے تو اسے مانیں۔بعد ازاں چیف جسٹس نے کہا کہ ڈی سی آپ اور آئی جی ایک ساتھ بیٹھ کر اس معاملے کو دیکھیں، ایک ہفتے کا وقت دے رہا ہوں اس معاملے کو دیکھ کر رپورٹ جمع کروائیں۔جس کے ساتھ ہی عدالت نے تمام ملزمان کی ضمانت بعداز گرفتاری کی درخواست منظور کرتے ہوئے تمام افراد کو رہا کرنے کا حکم دے دیا اور کیس کی سماعت ایک ہفتے کے لیے ملتوی کردی۔