اسلام آباد (آن لائن) جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ جج بھی قابل احتساب ہے،جج شیشے کے گھر میں رہتا ہے،کسی جگہ تو ریڈ لائن کھینچنی پڑے گی،موبائل فون سب سے بڑا جاسوس ہے،ٹیکنالوجی نے ہر چیز کو بدل دیا ہے،اب آئین موجود ہے، آئین سے ہٹیں گے تو مسائل ہوں گے ،ججز کو برطرف کرنے کا طریقہ آہین میں واضح ہے۔
سپریم جوڈیشل کونسل موجودہ کیس میں بھی قانون کے مطابق کام کر رہی ہے،کونسلز نظام پر تنقید کے بجائے اپنے کیس پر دلائل دیں،2010 میں افتخار چودھری کیس کی گائیڈ لائینز ایکزیکٹیو پر لازم نہیں ہیں،یہ عدالت ایگزیکٹو اور جوڈیشل کونسل کے لیے حتمی گائیڈ لائینز نہیں دے گی،طے ہے کہ ایکزیکٹیو کو ان گائیڈ لائنز کو فالو کرنا ہوگا،یہ معاملہ ٹیکس کا نہیں ہے مس کنڈکٹ کا ہے،سپریم جوڈیشل کونسل ذرائع آمدن کو دیکھ رہی ہے۔ منگل کے روز جسٹس قاضی فائز عیسی ریفرنس کیخلاف کیس کی سماعت جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دس رکنی لارجر بینچ نے کی۔ دوران دلائل دیتے ہوئے رشید اے رضوی نے موقف اپنایا کہ عدلیہ کی آزادی جج کی مدت ملازمت سے مشروط ہے ،جج کی مدت ملازمت کا تحفظ نہ ہو تو وہ حلف پر عمل نہیں کر سکے گا،حکومت اور ایجنسیوں کو آزاد عدلیہ کبھی پسند نہیں آتی،دنیا بھر میں ججز کو عہدے سے ہٹانا مشکل ترین عمل ہے، پاکستان میں ججز کو ہٹانا سب سے آسان ہے، آرٹیکل 209 میں اپروچ میں تحفظ ہونا چاہیے،گلاس ہارس پر شوٹ کرنے والے شوٹرز صرف دو ہیں،ایک صدر مملکت اور دوسری سپریم جوڈیشل کونسل،ریفرنس کی سمری انکوائری بشمول جاسوسی پر مبنی ہے،12 مئی 2007 سانحہ پر فیصلہ جسٹس کے کے آغا نے دیا۔
جسٹس کے کے آغا کو بھی ریفرنس میں نشانہ بنایا گیا،وسیم اختر نے عدالت میں تسلیم کیا کہ 12 مئی کو اسکی ہدایات پر کراچی میں سڑکیں بلاک ہوئیں،میں نے دیوار کو کود کر ججز کو سندھ ہائیکورٹ میں جاتے دیکھا ہے،بیرسٹر فروغ نسیم 12 مئی 2007 کے مقدمہ میں ایڈووکیٹ جنرل تھے،اس وقت فروغ نسیم وزیر قانون ہیں،یہ 12 مئی کا جھگڑا ہے لوگ اپنا اسکور سیٹ کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان بار کونسل کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے اس موقع پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اے آر یو یونٹ نے جج کو حاصل تحفظ کی خلاف ورزی کرکے مواد حاصل کیا۔
فیڈرل گورنمنٹ رولز کے تحت اے آر یو یونٹ جو ایسا اختیار نہیں تھا،صدر مملکت سے اجازت لیے بغیر اے آر یو مواد اکھٹا نہیں کرسکتا تھا، اے آر یو کو آغاز میں یہ معلومات صدر مملکت کے سامنے رکھنی چاہیے تھیں،پارلیمنٹ کو معاملہ پر قانون سازی کرنی چاہیے،جب تک قانون سازی نہ ہو تب تک طے شدہ طریقہ کار اپنانا پڑے گا،اعلی عدلیہ کے ججز کو ایسی انکوائری کے ذریعے ملزم نہیں بنایا جاسکتا۔
اے آر یو یونٹ نے انکوائری کے ذریعے ججز کے خلاف مواد تلاش کرنے کی کوشش کی،جج کا بھی ڈیو پراسس پر اتنا ہی حق ہے جتنا ایک عام شہری کا ہے،یہ معاملہ عدلیہ کے وقار کا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جج اور کوئی شخص احتساب سے بالاتر نہیں،جج کے خلاف اقدام آئین و قانون کے مطابق ہونا چاہیے۔جسٹس منیب اختر نے نے کہا کہ کسی جج کے مس کنڈکٹ کا ٹیکس اتھارٹی سے کوئی تعلق نہیں، اگر شکایت کو نہیں سنا جاتا تو پھر شکایت کنندہ کہہ سکتا ہے کہ میری حق تلفی ہے۔معاملے کی سماعت کل 29 جنوری تک کے لئے ملتوی کر دی گئی ۔