لاہور(این این آئی)مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر راناثنا اللہ خان نے کہا ہے کہ ووٹ کو عزت دو اور سویلین بالادستی کے بیانیے سے پیچھے نہیں ہٹے ، نوازشریف اور شہبازشریف وطن واپس آ کر پارٹی کی قیادت کریںگے اور اس بیانیے کو آگے بڑھائیں گے، پاکستان کی تاریخ میں ان ہائوس تبدیلی جتنی آج آسان اس سے پہلے کبھی نہیں تھی ۔
تبدیلی نئے انتخابات کیلئے آنی چاہیے ،پنجاب میں ضلعی سطح پرتنظیم سازی ایک ماہ میں مکمل کرنے اور پارٹی کو فعال کرنے کے لئے ڈویژنل سطح پر کنونشنز منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیاہے ، آرمی ایکٹ ترمیمی بل پر پارٹی میں کوئی اختلاف نہیں صرف طریق کار پر تحفظات ہیں ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے پارٹی کے مرکزی سیکرٹریٹ ماڈل ٹائون میں اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا ۔ اجلاس میں اویس لغاری،ملک ندیم کامران ،عظمی بخاری،خواجہ عمران نذیر، منشااللہ بٹ، سمیع اللہ خان،ذکیہ شاہنواز، رانا محمد ارشد، رانا مشہود، مرزا محمد جاوید سمیت دیگر بھی موجود تھے ۔ اس موقع پرملک کی مجموعی صورتحال ،پارٹی معاملات تنظیم سازی اوردیگر امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔راناثنا اللہ نے کہا کہ ذاتی طورپر پارٹی قیادت ، رہنمائوں ،کارکنوں اور میڈیا کے دوستوں کا شکریہ اداکرتاہوں جنہوں نے میرا ساتھ دیا ،بدترین سیاسی انتقام اورگھٹیا سوچ کے تحت میرے خلاف بے بنیاد مقدمہ بنایا گیا لیکن میں اپنے لئے کی گئی دعائوں سے سرخرو ہوا۔انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کی صرف ایک ہی پالیسی سیاسی انتقام ہے ،آج غریب مہنگائی کے ہاتھوں پریشان ہے ، ہر طرح کی سبسڈی ختم کر دی گئی ،ہسپتالوں سے ادویات نہیں مل رہیں ،حکومت کا ایک ایجنڈا ئے ہے کہ اپوزیشن کو انتقام کا نشانہ بنایاجایئے ۔
انہوں نے بتایا کہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ ایک ماہ میں ضلعی سطح پر تنظیم سازی مکمل کریں گے جس کے بعد صوبائی سطح پر اس مشق کو کیاجائے گا اس کے بعد پارٹی کو فعال کرنے کیلئے ڈویژنل سطح پر کنونشنز منعقد کریں گے ۔انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ آرمی ایکٹ ترمیمی بل کے ذریعے وزیراعظم آفس کوبا اختیارکیا گیا ہے اور اب یہ وزیراعظم کی صوابدید ہے کہ وہ توسیع دے یا نہ دے۔انہوں نے کہا کہ جب 19اگست کو آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع ہوئی تو اس وقت سب جماعتوں نے اس کی حمایت کی لیکن نااہل حکومت سے معاملہ ہینڈل نہیں ہوا اور یہ سپریم کورٹ میں چلا گیا ۔
ہم نے غیر مشروط طور پر حمایت کی ، اگرکوئی معاملہ ہوتا تو اس کے بعد ہمارے لوگ گرفتار نہ ہو تے ، نوازشریف کیخلاف نئی انکوائری شروع نہ ہوتی ۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) ووٹ کو عزت دو اور سویلین بالا دستی سے بیانیے سے پیچھے نہیں ہٹی ، بلکہ نواز شریف اور پوری جماعت اس بیانیے کے پیچھے کھڑی ہے ، آج تو ووٹ بھی تقاضہ کر رہا ہے مجھے عزت دو ۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے 10دسمبر کو ہنگامی اجلاس بلایا اوریہ سامنے آیا کہ آرمی ایکٹ ترمیمی بل کومنظور کرانا ہے ، ہماری جماعت بھی اس جلد بازی کا حصہ بنی حالانکہ ہمیں اسے روکنا چاہیے تھا ۔
سب جماعتوں کوطریق کار پر اعتراض ہے ۔ نواز شریف نے پیغا م بھجوایا کہ ایسانہیں ہونا چاہیے کہ پارلیمنٹ ربڑ سٹیمپ بنی ہوئی نظرآئے اور پھر یہ بل سات روز میں پاس ہوا ۔انہوں نے کہاکہ ان ہائوس تبدیلی آج جتنی آسان ہے تاریخ میں اس سے پہلے کبھی نہیں تھی ،نہ صر ف اتحادی بلکہ حکومت کے اپنے لوگ اس سے ناراضی کا اظہار کر رہے ہیں، ان ہائوس تبدیلی نئے انتخابات کیلئے آنی چاہیے ، اس کے تحت نیا وزیراعظم آئے اور الیکٹرول ریفارمز ہوںکیونکہ اس کے بغیر کوئی بھی جماعت انتخابات قبول نہیں کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ سب سے زیادہ احتساب اور انتقام کا نشانہ شریف فیملی بنی ہے اور یہ غلط پراپیگنڈا ہے کہ شریف فیملی کی کوئی قربانی نہیں ۔ انہوں نے کہاکہ نواز شریف صحتیابی کے بعد وطن واپس آئیں گے اور ووٹ کو عزت دو کے بیانیے کو آگے بڑھائیںگے ، نواز شریف کسی سے نہیں بلکہ عدالت سے ریلیف لے کر گئے ہیں۔ حکومت نے تو نواز شریف پر 300ارب سے3ہزار ارب کی کرپشن کا الزام لگایا ۔نواز شریف سے ساڑھے 7ارب روپے کا شورٹی بانڈ مانگا گیا لیکن انہوں نے اپنی شدید علالت کے باوجود بیرون ملک جانے سے انکار کر دیاتھا۔
نوازشریف ساڑھے 7ارب کی بجائے 50روپے کے اسٹام پیپرپر لکھ کر دے کر گئے کہ میں علاج کے بعد واپس آئوں گا ۔حکومت کو چاہیے کہ اس اسٹام پیپرکی مصدقہ کاپی کا تعویز بنا کر گلے میںپہنے تاکہ اسے سکون آجائے۔ انہوںنے کہا کہ مریم صرف اپنے والدکی علالت کی وجہ سے سیاسی سر گرمیاںنہیںکررہیں اور جیسے ہی نوازشریف صحتیاب ہو کر واپس آئیں گے نہ صرف قیادت بلکہ پوری جماعت سیاسی سر گرمیاں کرے گی ۔ انہوں نے کہاکہ جیل میں میرے ساتھ جو سلوک ہوا اگر ایساتحریک انصاف والوں کے ساتھ ہوا تو یہ سیاست چھوڑ دیںگے۔اجلاس میں نوازشریف اور شہبازشریف پربھرپور اعتماد ،پارٹی کے گرفتار رہنمائوںاور بیورو کریٹس کو خراج تحسین پیش کرنے ، مہنگائی اور سبسڈی ختم کرنے کے خلاف قراردادیں بھی منظور کی گئیں۔