کسی بادشاہ کو شعر لکھنے کا شوق تھا، وہ انتہائی واہیات شاعری کرتاتھا، اس کے استاد نے ایک دن اس کے شعروں کی اصلاح کی گستاخی کر دی، بادشاہ ناراض ہو گیا اور اس نے استاد کو جیل میں ڈلوا دیا، بادشاہ کو کچھ عرصے بعد استاد پر ترس آ گیا، اس کی سزا معاف کی اور نہلا دھلا کر کھانے کی دعوت دے دی، کھانے کی میز پر بادشاہ نے اپنے شعر سنانا شروع کر دیے،
استاد تھوڑی دیر وہ واہیات شاعری برداشت کرتا رہا لیکن جب ہمت جواب دے گئی تو وہ اٹھا اور جوتا پہننا شروع کر دیا، بادشاہ نے پوچھا ”کیوں کہاں جا رہے ہیں“ استاد بولا ”جناب جیل جانے کی تیاری کر رہا ہوں“۔ پاکستان بھی اس استاد جیسا ملک ہے، دنیا میں کسی بھی جگہ کوئی بھی خوف ناک واقعہ پیش آ جائے‘ پھنس ہم جاتے ہیں‘ آپ نائین الیون سے لے کر کوالالمپور کانفرنس تک دنیا کے تمام بڑے واقعات کا تجزیہ کر لیجیے، آپ کو ان سب کا ملبہ پاکستان کے اوپر گرتا نظر آئے گا، امریکا نے تین جنوری کو پاسداران انقلاب کے چیف قاسم سلیمانی کو ڈرون حملے میں قتل کر دیا، یہ خوف ناک واقعہ تھا لیکن ایران کے بعد اس کا دوسرا شکار پاکستان ہے، آنے والے ہر دن میں امریکا، یورپ اور سعودی عرب کی طرف سے پاکستان پر دباؤ آئے گا، ایران ہمارا ہمسایہ ہے اور باقی ملک سٹیک ہولڈرز ملک ہمارے دوست چناں چہ ہم درمیان میں پس کر رہ جائیں گے، اس صورت حال میں ہمارا کمال ہو گا ہم نیوٹرل بھی رہیں اور دونوں سے بچ بھی جائیں لیکن یہ یاد رکھیں یہ واقعہ دنیا کی تیسری عالمی جنگ کی طرف لے جائے گا، آج قومی اسمبلی میں اس پر بحث ہونی چاہیے تھی لیکن اور ایشو ڈسکس ہوتا رہا،یہ ایشو زیادہ اہم تھا یا پھر ایران امریکا جنگ اور کیا میڈیا سیاست دانوں کی کریکٹر ایسسی نیشن کرتا ہے یا پھر سیاست دانوں کی سیاست دان؟