ملتان(این این آئی)وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہاہے کہ احتجاج سب کا حق ہے ، آئین ڈنڈا بردار ملیشیا کی اجازت نہیں دیا ،ملک میں مارشل لاء کے کوئی امکانات نہیں ہیں ، آزادی مارچ سے ایسے نمٹیں گے جیسے جمہوریت میں نمٹا جاتا ہے ،سیاسی عمل میں مذاکرات کی گنجائش اور ایک دوسرے کا نقطہ نظر سننے کا حوصلہ ہونا چاہیے۔
پی ایس 11کا نتیجہ پہلا قطرہ ہے ،آئندہ سندھ میں حکومت پی ٹی آئی اور اتحادیوں کی ہوگی،بھارتی کوششوں کے باوجود پاکستان بلیک لسٹ نہ ہونے میں کامیاب رہا ، بھارت چاہتا ہے پاکستان اندرونی مسائل میں الجھ جائے،وزیر اعظم 9 نومبر کو کرتار پور راہداری کا افتتاح کریں گے، منموہن سنگھ کرتارپور راہداری کے افتتاح میں شرکت کریں گے،مودی کو پیغام ہے’’روک سکو تو روک لو’’ راہداری کھلے گی۔ ہفتہ کو یہاں میڈیا سے بات کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ بھارت نے سفارتی محاذ پر سر توڑ کوششیں کیں اور ان کی تمام تر کوششوں کے باوجود پاکستان بلیک لسٹ نہ ہونے میں کامیاب رہا، ایف اے ٹی ایف کے پلیٹ فارم پر پاکستان کی کوششوں کا اعتراف کیا گیا۔وزیرخارجہ نے کہا کہ کچھ قوتیں مسلمان ممالک میں اختلافات پیدا کرنا چاہتی ہیں لیکن پاکستان نے مسلم امہ کے لیے بھرپور کردار ادا کیا ہے، وزیراعظم کی کوشش ہے کہ خطے کا امن خراب نہ ہو، امت کے اتحاد کے مشن پر وزیراعظم ایران اور سعودی عرب کے دورے پر گئے، سعودیہ اور ایران میں کشیدگی کم ہورہی ہے، ہماری کوشش ہے امن کو آگے بڑھائیں اور ٹینشن میں کمی دکھائی دے رہی ہے۔وزیرخارجہ نے کہا کہ ہندوستان دباؤ میں ہے، بھارت چاہتا ہے پاکستان اندرونی مسائل میں الجھ جائے۔
عالمی برادری کی کشمیر سے توجہ ہٹانے پر بھارت پاکستان میں شوشہ چھوڑنا چاہتا ہے، دلی سمجھتا ہے کہ پاکستان اگر اپنے اندرونی مسائل میں الجھ جاتا ہے تو ان کی کشمیر پر سے توجہ اٹھ جائیگی لیکن پاکستان کی عوام سمجھتی ہے کہ ملک اور کشمیریوں کی ضروریات کیا ہیں، بھارت کا انسانی حقوق کا ریکارڈ بے نقاب ہو چکا ہے۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ میری رائے میں ملک میں مارشل لا کے کوئی امکانات نہیں ہیں، آزادی مارچ والوں سے ایسے نمٹیں گے جیسے جمہوریت میں نمٹا جاتا ہے۔
ہماری کوشش ہوگی کی کہ مارچ والے اپنا اظہار پرامن انداز میں کریں لیکن ڈنڈا بردار فورسز کی گنجائش آئین نہیں دیتا،انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 256 اور 245 دو ایسے آرٹیکلز ہیں کہ اگر آپ ان کا مطالعہ کر لیں گے تو آپ کو اپنے سوال کا جواب مل جائے گا۔ انہوںنے کہاکہ سیاسی عمل میں مذاکرات کی گنجائش اور ایک دوسرے کا نقطہ نظر سننے کا حوصلہ ہونا چاہیے، ہماری گزارش ہوگی کہ مارچ والے بھی کوئی ایسا قدم نہ اٹھائیں جس سے پاکستان کے مخالفوں کو تقویت ملے۔
وزیرخارجہ نے کہا کہ وزیر اعظم 9 نومبر کو کرتار پور راہداری کا افتتاح کریں گے، مودی کو پیغام ہے’’روک سکو تو روک لو’’ راہداری کھلے گی، بھارت چاہے نہ چاہے کرتار پور راہداری کھول دیں گے۔ انہوںنے کہاکہ سابق وزیراعظم منموہن سنگھ نے خط میں اپنی آمد کا کہا ہے انہیں خوش آمدید کہیں گے، پاکستان نے بھارت کی نسبت بہتر انتظامات کیے ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر 5ہزار سکھ یاتری پاکستان آ سکیں گے۔رکن قومی اسمبلی نے کہا کہ میں نے پیشگوئی کی تھی سندھ میں اگلی حکومت پی ٹی آئی اور اتحادیوں کی ہوگی۔
میں سمجھتا ہوں کہ پیپلزپارٹی کی صفوں میں کھلبلی مچی ہے اور پی ایس گیارہ کا نتیجہ تبدیلی کا ایک اشارہ ہے۔ایک سوال پر انہوںنے کہاکہ ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کی منی لانڈرنگ کی روک تھام کی کوششوں کو تسلیم کیا ہے، فروری 2020 تک پاکستان دیگر اہداف بھی حاصل کرلے گا۔شاہ محمود قریشی نے کہاپہلے ہی کہ دیا تھا سندھ میں آئندہ حکومت پی ٹی آئی اور اتحادیوں کی ہوگی، پی ایس 11کا نتیجہ پہلا قطرہ ہے ۔
سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے،بلاول بھٹو نے 5دن پی ایس 11الیکشن کی مہم چلائی۔انہوں نے کہا کہ اسی حلقے سے بلاول بھٹو رکن قومی اسمبلی بھی سندھ کی عوام باشعور ہوگئی ہے اور نتیجہ تبدیلی کا اشارہ ہے ، پیپلز پارٹی مسلسل 11سال سے سندھ میں برسر اقتدار ہے۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ بلاول بھٹو الیکشن کے نتیجے پر اپنی قیادت سے نالاں ہیں ،بلاول کی ناراضگی کے باعث سندھ کابینہ میں تبدیلی نظر آئے گی۔انہوں نے کہا کہ افغانستان دھماکے کی مذمت کرتے ہیں، افغانستان میں امن خطے کے امن سے مشروط ہے۔
معیشت کے حوالے سے کیے گئے سوال پر انہوں نے کہاکہ نئے اعدادوشمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہماری معیشت اب مستحکم ہو رہی ہے، ہماری ترسیلات زر اس میں پچھلے سال کی نسبت اس سال 17فیصد تک اضافہ ہوا ہے، ہماری برآمدات میں 5.9فیصد اضافہ ہوا ہے، ہماری درآمدات میں 11سے13 فیصد تک کمی ہوئی ہے، ہمارا روپیہ مستحکم ہوا ہے اور کل مارکیٹ میں ڈالر 155 سے 156 روپے میں فروخت ہو رہا تھا۔وزیر خارجہ کہا کہ ڈیوک آف کیمبرج شہزادہ ولیم اور ان کی اہلیہ ڈچز آف کیمبرج کیٹ مڈلٹن اپنا کامیاب دورہ پاکستان مکمل کر کے واپس تشریف لے گئے ہیں اور وہ پاکستان سفیر بن کر واپس گئے ہیں اور ان کے دورے پاکستان اور برطانیہ کے درمیان تعلقات پہلے مقابلے میں مزید مستحکم ہوئے ہیں۔