سرینگر(سی پی پی)مقبوضہ کشمیر میں سرینگر میں سینکڑوں لوگوں نے کرفیواور دیگر پابندیوںکو خاطر میں نہ لاتے ہوئے غیر قانونی بھارتی قبضے اور مقبوضہ علاقے کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے خلاف زبردست مظاہرے کیے۔ کشمیر میڈیاسروس کے مطابق سرینگر کے علاقے صورہ میں گزشتہ روز نماز جمعہ کے بعد خواتین اور بچوں سمیت ایک ہزار کے لگ بھگ لوگوں نے جمع ہو کر زبردست مظاہرہ کیا۔
بھارتی فوجیوں نے مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے پیلٹ چلائے اور آنسو گیس کے گولے داغے جس کے بعدمظاہرین اور فورسز اہلکاروں کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں۔ قابض بھارتی فوجیوں کی طرف سے طاقت کے وحشیانہ استعمال کے نتیجے میں متعدد افراد زخمی ہو گئے ۔ قابض انتظامیہ نے بھارت کے کشمیر مخالف اقدامات اور جموںوکشمیر پر اسکے غیر قانونی قبضے کے خلاف سرینگر کے علاقے سونہ وار میں قائم اقوام متحدہ کے مبصرین دفتر کی طرف کشمیریوں کے احتجاجی مارچ کو روکنے کیلئے جمعہ کے روز کرفیو اور پابندیاں مزید سخت کر دی تھیں۔ مارچ کی کال حریت رہنمائوں نے سرینگر اور مقبوضہ وادی کے دیگر علاقوں میں پوسٹروں کے ذریعے دی تھی تاکہ بھارت اور عالمی برادری کو یہ باور کرایا جائے کہ کشمیری بھارتی تسلط اور ہندو تہذیب کوتسلیم نہیں کریں گے ۔ مارچ کا مقصد غیر کشمیریوں کو مقبوضہ علاقے میں آباد کر کے یہاں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کی بھارتی کوشش کے خلاف مزاحمت کرنا بھی تھا۔سخت کرفیو اور پابندیوں کے باعث مقبوضہ وادی ، پیرپنجال اور وادی چناب کی کئی مساجد میں جمعہ کی نماز ادا نہیں کی جاسکی۔یا د رہے کہ نریندر مودی کی سربراہی میں قائم بھارتی حکومت کی طرف سے پانچ اگست کو بھارتی آئین کی دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد سے مقبوضہ کشمیر گزشتہ بیس روز سے مکمل طور پرقابض بھارتی فورسز کے محاصرے میں ہے۔
قابض انتظامیہ نے مقبوضہ وادی خاص طور پر سرینگر میں جگہ جگہ بھارتی فوجی اور پولیس اہلکار تعینات کر کے اسے ایک فوجی چھائونی میں تبدیل کر دیا ہے۔ بھارتی فورسز اہلکاروں نے لوگوں کو بھارتی جارحیت کے خلاف احتجاج کے لیے گھروں سے باہر آنے سے روکنے کیلئے سڑکوں پر جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کر رکھی ہیں اور خار دار تاریں بچھائی ہیں تاہم لو گ کرفیو ، پابندیوں اور رکاوٹوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے گھروں سے باہر آکر جموں وکشمیر کو خصوصی حیثیت فراہم کرنے والی بھارتی آئین کی دفعہ 370کی معطلی کے مذموم بھارتی اقدام کے خلاف مسلسل احتجاج کر رہے ہیں۔
مقبوضہ علاقے میں ٹیلی ویژن ، انٹر نیٹ اور مواصلات کے دیگر تمام ذرائع بھی مسلسل معطل ہے جس کی وجہ سے مقبوضہ علاقے کا بیرونی دنیا سے رابطہ بالکل معطل ہے۔ ادھر سید علی گیلانی ، میر واعظ عمر فاروق سمیت تمام حریت رہنما گھروں اور جیلوں میں نظر بند ہیں۔ سینکڑوں سیاسی رہنمائوں اور کارکنوں سمیت چھ ہزار سے زائد کشمیریوں کو حراست میں لیا گیا ہے ۔ حراست میں لیے جانے والوں میں بھارت نواز رہنما فاروق عبداللہ ، عمر عبداللہ ، محبوبہ مفتی، غلام احمد میر ، انجینئر عبدالرشیداور شاہ فیصل بھی شامل ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کی جیلوں اور تھاتوں میں اب مزید لوگوں کو رکھنے کی گنجائش باقی نہیں رہی ہے لہذا حراست میں لیے گئے بیسیوں افراد کو عارضی حراستی مرکزوں میں رکھا گیا ہے۔ مسلسل محاصرے کے باعث مقبوضہ وادی کو اس وقت بچوں کی غذا اور زندگی بچانے والی ادویات سمیت بنیادی اشیائے ضروریہ کی سخت قلت کا سامناہے۔