اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) تحقیقاتی اداروں نے دعویٰ کیا ہے کہ افغان طالبان کے امیر ملا منصور کراچی میں رئیل سٹیٹ کا کاروبار کرتے تھے، ان کے نام پر متعدد پلاٹس، فلیٹس اور رہائشی منصوبے ہیں جنھیں سیل کردیا گیا ہے۔ برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق ایف آئی اے کے کاؤنٹر ٹیررازم ونگ نے ملا منصور پر جعل سازی کا مقدمہ بھی درج کیا ہے۔
جس میں بتایا گیا ہے کہ ملا منصور کے حوالے سے ایف آئی اے کراچی یونٹ کے سامنے یہ حقیقت آئی کہ محمد ولی ولد شاہ محمد اور گل محمد ولد سعید امیر علی کے شناختی کارڈوں میں جو کوائف دیئے گئے وہ وہی تھے جو ملا منصور کے شناختی کارڈ میں موجود تھے۔ایف آئی اے کے مطابق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار داد نمبر 1267 کے باوجود، جس میں اسامہ بن لادن اور ان کے ساتھیوں اور طالبان کو دہشت گرد قرار دیا گیا تھا، ملا منصور کراچی میں جائیدار کی خرید و فروخت کا کاروبار کرتے رہے اور چھ غیر منقولہ املاک کے مالک تھے۔ایف آئی اے کے مطابق ان املاک میں پلاٹ، فلیٹس اور رہائشی منصوبے شامل ہیں جو گلشن معمار کے ڈی اے سکیم نمبر 45، شہید ملت روڈ پر واقع ہیں اور جنھیں سیل کر دیا گیا۔ملا منصور اپنے فرنٹ مین عمار ولد محمد یاسر کے ذریعے یہ کاروبار کرتے تھے۔ایف آئی اے کے مطابق ملا منصور کے مختلف بینکوں میں کھاتے بھی موجود تھے ان کھاتوں کے لیے انھوں نے اقرا سٹیٹ ایجنسی کا نام استعمال کیا تھا لیکن بعد کی تحقیقات کے مطابق ان کا اس ایجنسی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ایف آئی اے کی ایف آئی آر کے مطابق ملا منصور نے محمد ولی اور گل محمد کے نام سے جعلی شناختی کارڈ حاصل کیے تھے اور جعلی کوائف پر مالی سرگرمیوں میں ملوث رہے۔اس جرم میں انسداد دہشت گردی ایکٹ اور پاکستان پینل کوڈ کی دفعات کے تحت ملا منصور عرف محمد ولی عرف گل محمد اور ان کے فرنٹ مین عمار کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے جبکہ بینک حکام اور نادرا حکام کے کردار کا بھی تعین کیا جائے گا۔یاد رہے ملا منصور 2016 میں ایک ڈرون حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔