جاوید چوہدری اپنے کالم (پردے کے پیچھے کیا ہوتا رہا ؟دوسرا حصہ)میں لکھتے ہیں کہ سیاست دان قوم کے سر کی چادر ہوتے ہیں‘ یہ قوم کے عیب ڈھانپتے ہیں لیکن ہمارے سیاست دان کیا کر رہے ہیں؟ یہ ججوں کی خریدو فروخت میں بھی ملوث ہیں‘ یہ ان کی ویڈیوز بھی بنا رہے ہیں اور یہ ان کی آڈیوزبھی ریکارڈ کر رہے ہیں‘ قومیں احتساب کے ذریعے ملک کے
بدبودار گٹڑ صاف کیا کرتی ہیں لیکن ہمارے ملک میں چیئرمین نیب کی اپنی ملزمہ کے ساتھ آڈیو اور ویڈیو آ جاتی ہے اور یہ اس کے باوجود لوگوں کے مقدر کا فیصلہ کرتے رہتے ہیں‘ بیورو کریسی ملکوں کا گیئر باکس ہوتی ہے مگر ہمارا گیئر باکس سال سے بند پڑا ہے اور پیچھے رہ گئی حکومت تو آپ سینٹ کے چیئرمین کی تبدیلی پر حکومت کا کردار بھی دیکھ لیجیے گا۔ آپ کو اپنے آپ سے نفرت ہو جائے گی‘ مجھے نہیں معلوم جج ارشد ملک کے ایشو کا کیا حل نکلتا ہے؟ سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ کس نتیجے پر پہنچتا ہے لیکن میں اتنا ضرور جانتا ہوں جج ارشد ملک نے ملک کا عدل اور انصاف کا پورا نظام داؤ پر لگا دیا‘ موصوف نے ثابت کر دیا قوم گندگی کے ایک ایسے ڈھیر پر بیٹھی ہے جس کے نیچے بدبودار بیماری کے سوا کچھ نہیں اور میاں نواز شریف نے بھی یہ کھیل‘ کھیل کر اپنی اخلاقی سیاست کا جنازہ نکال دیا‘ یہ ثابت کر بیٹھے ہیں یہ ناصر بٹ اور مہر جیلانی جیسے ٹاؤٹوں میں گھرے ہوئے ہیں اور یہ بھی گھی نکالنے کے لیے کسی بھی سطح تک جا سکتے ہیں‘ افسوس ہم واقعی گندگی کے ایک ایسے ڈھیر پر ہیں جس میں اوپر نیچے اور دائیں بائیں گندگی کے سوا کچھ نہیں‘ اب صرف اللہ ہی ہماری حفاظت کرسکتاہے۔