اسلام آباد( آن لائن )سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کے مبینہ ویڈیو سے متعلق کیس کی سماعت 23جولائی تک ملتوی کرتے ہوئے اٹارنی جنرل سے تجاویز طلب کرنے کا نوٹس جاری کردیا ، چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس عظمت سعید اورجسٹس عمر عطاء بندیال پر مشتمل تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
اس موقع پر چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ ذمہ دار لوگوں کو عمومی بیانات سے اجتناب کرنا چاہیے یہ کہنا درست نہیں ہے کہ سب وکیل جج ، پولیس ، سیاستدان برے ہیں جو لوگ برے نہیں ہوتے ان کی دل آزاری ہوتی ہے ۔عدلیہ میں جذبات نہیں سنجیدگی سے معاملہ دیکھنا ہے۔ پہلا سوال عدلیہ کی ساکھ ہے دوسرا سوال فیصلہ درست ہونے کا یا نہ ہونے کا ہے ،تیسرا سوال جج کے کنڈکٹ کا ہے توہین عدالت کا مطلب ہوگا جج پر الزامات غلط ہیں۔ درخواست گزار اشتیاق مرزا کے وکیل منیر صادق نے عدالت کو بتایا کہ مریم نواز نے چھ جولائی کو پریس کانفرنس کی ہے جس میں انہوں نے جج پر سنگین نوعیت کے الزامات عائد کئے ہیں تو چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ پریس کانفرنس کہاں اور کس مقام پر ہوئی ؟ تو وکیل نے بتایا کہ پریس کانفرنس لاہور میں منعقد ہوئی جس میں شہباز شریف ، شاہد خاقان عباسی ، مریم اورنگزیب و دیگر رہنما موجودتھے اور الزام عائد کیا گیا کہ جج نے کسی اور کی ایماء پر فیصلہ دیا ہے تاہم جج نے تمام الزامات کی تردید کی ہے ۔ درخواست گزار کے وکیل منیر صادق کا مزید کہنا تھا کہ جج نے کہا کہ ویڈیو کے مختلف حصوں کو جوڑا گیا ہے اور ارشد ملک کے بیان حلفی میں بھی بلیک میلنگ کی تفصیلات بتائی گئی ہیں۔
عدلیہ پر سنگین الزامات عوامی مفادات کا معاملہ ہے اور وزیراعظم نے بھی عدلیہ سے نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے لہذا چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے بھی اس معاملے پر تحقیقات کی بات کی ہے اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے بھی تحقیقات کا مطالبہ کیاجارہا ہے تو اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ لوگوں کے کہنے پر نوٹس لینے سے عدلیہ کی آزادی پر سوال نہیں اٹھیں گے آزاد لوگ خود کام کرتے ہیں کسی کے کہنے پر نہیں سوموٹو عدالت لیتی ہے ۔
کسی کی ڈیمانڈ پر لیا گیا سوموٹو وہ سوموٹو نہیں ہوتا اور عدالت کسی کی ڈیمانڈ پر نہیں چلتی اور آپ کی درخواست بھی یہی ہے کہ ججز ڈیمانڈ پر نہ چلیں آپ کی کیا تجویز ہے کہ عدالت کیا کرے تو اس موقع پر وکیل نے جواب دیا کہ عدالت جوڈیشل انکوائری کرائے تو زیادہ بہتر ہوگا انکوائری کمیشن میں تمام بیانات ریکارڈ کروائے جائیں تو چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ انکوائری کمیشن کی سربراہی کس سے کروانا چاہتے ہیں تو منیر صادق نے کہا کہ بہتر ہوگا کہ کوئی جج کمیشن کی سربراہی کرے ۔
عدلیہ کی آزادی کیلئے متعدد اقدامات کی ضرورت ہے تو چیف جسٹس نے کہا کہ ذمہ دار لوگوں کو عمومی بیانات سے اجتناب کرنا چاہیے یہ کہنا درست نہیں ہے کہ سب وکیل جج ، پولیس ، سیاستدان برے ہیں جو لوگ برے نہیں ہوتے ان کی دل آزاری ہوتی ہے تو وکیل منیر صادق کا کہنا تھا کہ انکوائری کمیشن الزامات اور جواب کی سچائی کا تعین کرے اگر توہین عدالت ہو تو کارروائی ہونی چاہیے تو چیف جسٹس نے کہا کہ انسان کی پیدائش سے ہی سچ کی تلاش جاری ہے۔
سچ عدالت نے تلاش کیا تو اپیل لانے والے کیا کرینگے ،عدالت حکومت کو بھی کمیشن بنانے کا کہہ سکتی ہے ۔نواز شریف کی اپیل اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر التواء ہے کمیشن بن بھی گیا تو اس کی رائے ثبوت نہیں ہوگی ، ہائی کورٹ میں اپیل پر کمیشن رپورٹ اثر انداز ہوسکتی ہے کیا آپ کو ہائی کورٹ پر اعتماد نہیں ہے ؟ ہائی کورٹ پر اعتماد ہے تو اسے کام کرنے دیا جائے ۔ چیف جسٹس نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کیا تو ایڈووکیٹ منیر صادق نے کہا کہ عدالت پانامہ طرز کی جے آئی ٹی بنا سکتی ہے ۔
جے آئی ٹی سے کم از کم سچائی تو سامنے آگئی تھی کسی میں جرات نہیں ہونی چاہیے کہ جج کو بلیک میل کرے تو چیف جسٹس نے کہا کہ بے شک ججز کی ساکھ بہت اہم ہے جے آئی ٹی عدالت نے اپنی معاونت کیلئے بنائی تھی کسی کے کہنے پر نہیں درخواست گزار سہیل اختر کے وکیل ایڈووکیٹ اکرام چوہدری نے اپنے دلائل میں کہا کہ نواز شریف کیخلاف دبائو کے تحت فیصلے کا الزام عائد کیا گیاہے مریم نواز شریف نے مزید ثبوتوں کا بھی دعویٰ کیا جج نے کہا کہ ناصر بٹ سے میری شناسائی ہے اور جج کا مزید بھی کہنا تھا کہ دبائو ہوتا تو ایک کیس میں بری نہ کرتا ۔
حسین نواز نے جج کے ساتھ مدینہ منورہ میں ملاقات کی فرانزک آڈٹ اور تحقیقات کے تحت تمام فریقین کے جواب لئے جائیں تو چیف جسٹس نے کہا کہ ویڈیو سکینڈل کا جائزہ لینا ضروری ہے سوال یہ ہے کہ جائزہ کون اور کس طرح لے گا ویڈیو سکینڈل غیر معمولی واقعہ ہے تو اس موقع پر درخواست گزار طارق اسد نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جج ارشد ملک ہائی پروفائل مقدمات کی سماعت کررہا تھا تو چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کے سامنے سب برابر ہیں کوئی ہائی پروفائل نہیں ہوتا ویڈیو میں ہائی پروفائل لوگ ہیں سب آگئے ایسے واقعات سے نظام عدالت متاثر ہونے کا کسی نے نہیں کہا۔
جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیئے کہ جج کے کنڈکٹ پر قانون موجود ہے فیصلہ درست ہے یا غلط فیصلہ اعلیٰ عدلیہ ہی کرے گی جو دھول ابھی اٹھ رہی ہے اسے چھٹنا چاہیے ۔عدلیہ میں جذبات نہیں سنجیدگی سے معاملہ دیکھنا ہے پہلا سوال عدلیہ کی ساکھ ہے دوسرا سوال فیصلہ درست ہونے کا یا نہ ہونے کا ہے تیسرا سوال جج کے کنڈکٹ کا ہے توہین عدالت کا مطلب ہوگا جج پر الزامات غلط ہیں ایڈووکیٹ طارق اسد نے کہا کہ ویڈیو کی فرانزک تک کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا۔
جج نے غلط کام کئے جج تو کسی فریق کے وکیل سے بھی نہیں ملتا جج کی کوئی مانیٹرنگ کیوں نہیں کی گئی حکام اور حساس ادارے کہاں تھے جج کی نقل وحرکت پر نظر کیوں نہیں رکھی گئی صرف جوڈیشل کمیشن سے ہی مسئلہ حل نہیں ہوگا عدالت اداروں کوبھی عدالتی معاملات میں مداخلت سے روکے لال مسجد کیس میں دو لفافے ججز کو ملے اور ججز نے لفافے ملتے ہی بغیر سنے فیصلہ سنا دیا عدلیہ پر دوسرے ادارے اثر انداز ہورہے ہیں تو چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ کیا ادارے مداخلت کرتے ہیں۔
دوسری جانب کہتے ہیں کہ اداروں نے جج پر نظر نہیں رکھی تو ایڈووکیٹ طارق اسد نے کہا کہ جج کی عمرہ جانے پر اصل مقصد حسین نواز سے ملاقات تھی ججز کو عوامی ملاقاتوں سے روکنا چاہیے اعلیٰ عدلیہ کے ججز اب سوشل نہیں رہے ہیں محتاط عدلیہ کے ججز کو بھی سوشل ملاقاتوں سے روکا جائے میری بیگم ٹی وی دیکھتی ہے تو میں کمرہ چھوڑ دیتا ہوں یا کمرہ چھوڑنے کی بجائے ٹی وی بند کردیتا ہوں یہ کیس ایسا ہے کہ جس سے لوگوں کو سبق مل سکتا ہے تو چیف جسٹس نے کہا کہ کمیشن بنانے کا اختیار حکومت کو بھی ہے تو ایڈووکیٹ طارق نے کہا کہ حکومتی کمیشن جانبدار ہوگا ۔
سپریم کورٹ کے حاضر یا ریٹائرڈ جج پر مشتمل کمیشن ہونا چاہیے چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کو تو ریٹائرڈ جج بھی قبول ہے تو ایڈووکیٹ طارق اسد نے کہا کہ ریٹائرڈ جج بھی اچھی ساکھ کا ہونا ضروری ہے تو چیف جسٹس نے کہا کہ ممکن ہے کہ ارشد ملک کا تبادلہ پنجاب کردیاجائے اور لاہور ہائی کورٹ کے ماتحت جانے پر ہی ارشد ملک کیخلاف کارروائی ہوسکتی ہے تاہم عدالت نے کیس کی سماعت 23جولائی تک ملتوی کرتے ہوئے اٹارنی جنرل سے تجاویز طلب کرلی ہیں۔