آپ کو یاد ہو گا1990ء میں عراق نے کویت پر قبضہ کر لیا تھا‘ قبضے کے بعد ہم جیسے ملکوں کو صدام حسین میں سلطان صلاح الدین ایوبی نظر آنے لگا تھا لیکن پھر کیا ہوا‘سات ماہ بعد عراق کویت خالی کرنے پر بھی مجبور ہو گیا اور تاوان جنگ ادا کرنے اور کویت کا نقصان برداشت کرنے پر بھی‘ اس وقت ایک سیاسی فلاسفی سامنے آئی تھی‘ ہولڈ فلاسفی‘ اس فلاسفی کا مطلب تھا دنیا میں کسی ملک‘ کسی چیز پر قبضہ اہم نہیں ہوتا‘
یہ اہم ہوتا ہے کہ آپ اس قبضے کو کتنا عرصہ ہولڈ کر سکتے ہیں‘ہولڈ کرنا ا ہم ہوتا ہے‘ ہماری حکومت سارے کام برے نہیں کر رہی‘ آج حکومت نے ایمنسٹی ختم ہوتے ہی بے نامی زمینوں کے خلاف کارروائی شروع کر دی‘ ن لیگ کے سینیٹر چودھری تنویر کی چھ ہزار کنال بے نامی زمین کی ضبطگی کا عمل شروع ہو گیا‘ کراچی میں آصف علی زرداری اور اومنی گروپ کے اربوں روپے کے اثاثے بھی ہولڈ کر لیے گئے ہیں اور آپ آنے والے چند گھنٹوں میں ملک کے پچاس شہروں سے اسی قسم کی رپورٹیں بھی سنیں گے‘ یہ بہت اچھا قدم ہے‘ سٹیٹ کو اپنی رٹ ضرور دکھانی چاہیے لیکن سوال یہ ہے سٹیٹ ان پراپرٹیز کو کتنی دیر ہولڈ کر سکے گی‘ یہ عدالتوں میں کیسے بے نامی ثابت ہوں گی اور اگر یہ ثابت بھی ہوگئیں تو حکومت ان پراپرٹیز کا کرے گی کیا‘ کیا یہ انہیں نیلام کر سکے گی‘ کہیں یہ نہ ہو جائے حکومت کو یہ پراپرٹیز بھی نہ ملیں اور ان پر قانونی کارروائیوں پر ریاست کے اربوں روپے بھی خرچ ہو جائیں‘ کہیں ایسا نہ ہو جائے عراق کی طرح ریاست کل کو یہ پراپرٹیز واپس کرنے پر بھی مجبور ہو جائے اور آج کے ملزموں کو جرمانہ بھی ادا کرے‘ آپ یہ پراپرٹیز ضرور ہولڈ کریں لیکن انہیں ٹھکانے لگانے کا بندوبست بھی ضرور کر لیں۔ وزیراعظم نے ایک بار پھر این آر او نہ دینے کا اعلان کر دیا‘ اپوزیشن بادشاہوں کو درمیان میں کیوں لا رہی ہے اوربادشاہ مجرموں کی سفارش کیوں کر رہے ہیں‘ اور وزیراعظم نے ایک بار پھر جیلوں سے اے اور بی کلاس ختم کرنے کا اعلان کر دیا، کیا یہ ممکن ہے؟