لاہور(آن لائن) مسلم لیگ ن میں ہونے والی گروہ بندی کے پیش نظر ارکان اسمبلی اور دیگر عہدیداروں نے پارٹی سے کنارہ کشی اختیار کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ جبکہ کئی ارکان اسمبلی اور سینیٹرز نے بیرون ملک جانے کا پروگرام بنا لیا تا کہ موجودہ حالات میں پارٹی گروپنگ اور گرفتاریوں سے بچا جا سکے۔ اس میں اہم کردار مریم نواز اور شہباز شریف کے مابین بیانیے کا فرق بھی ہے ۔
جس نے ارکان اسمبلی اور پارٹی عہدیداران کو کافی حد تک کنفیوژن کا شکار کر دیا ہے۔مسلم لیگ ن کے ارکان اسمبلی ایک طرف کشمکش کا شکار ہیں کہ وہ کس طرف جائیں ، کس کو خوش رکھیں اور کس سے دور ہوں۔ کئی ارکان اسمبلی تو حال ہی میں ہونے والی گرفتاریوں سے اس قدر خوفزدہ ہیں کہ انہوں نے موجودہ صورتحال میں خاص طور پر رانا ثنا اللہ کی گرفتاری کے بعد کچھ عرصہ کے لیے بیرون ملک جانے پر غور شروع کر دیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پارٹی صدر شہباز شریف کی جانب سے طلب کیے گئے اجلاس میں بھی مریم نواز کو ایڈوائزری کمیٹی کا ممبر نہ ہونے کے باجود بھی آنے کا کہا گیا تھا لیکن مریم نواز نہیں آئیں جس سے مزید چہ میگوئیاں شروع ہو گئی ہیں۔چچا بھتیجی کے اس آپسی تناؤ نے پارٹی رہنماؤں کو بھی مشکل میں ڈال دیا ہے۔ مریم نواز چاہتی تھیں کہ رانا ثنا اللہ کے معاملے پر حکومت کے خلاف بھرپور احتجاجی مہم کی کال دی جائے اور سخت ترین احتجاج کر کے اپنی پاور بھی شو کی جائے اور حکومت کو مزید ٹف ٹائم دیا جائے لیکن پارٹی صدر شہباز شریف اور ان کے قریبی رفقا جارحانہ احتجا ج کے موڈ میں نہیں تھے۔