استاد دامن پنجابی کے بہت بڑے شاعر تھے‘ کدی لاڑکانہ تے کدی مری جانا ایں‘ کی کری جانا ایں‘ کی کری جانا ایں‘ استاد دامن نے ایسی سینکڑوں نظمیں لکھیں اور پڑھیں‘ ایوب خان کا دور تھا‘ حکومت استاد سے ناراض ہو گئی‘ استاد پرانے لاہور شہر میں ایک کچی کوٹھڑی میں رہتا تھا‘ پولیس نے کوٹھڑی پر چھاپا مارا اور استاد پر بغیر لائسنس اسلحہ رکھنے کا مقدمہ بنا دیا‘ کسی نے اس دور میں استاد دامن سے پوچھا‘
استاد جی پولیس نے آپ کی کوٹھڑی سے پستول برآمد کر لیا‘ استاد نے ہنس کر جواب دیا‘ میری کوٹھڑی کا دروازہ تنگ تھا ورنہ پولیس اس سے توپ بھی برآمد کر لیتی‘ آج اے این ایف نے موٹر وے پر سکھیکی کے قریب پاکستان مسلم لیگ ن پنجاب کے صدر اور ایم این اے رانا ثناء اللہ کی گاڑی روک کر ان سے بھاری مقدار میں منشیات برآمد کر لی، ملک کی کوئی سیاسی جماعت‘ کوئی سیاسی کارکن اور عام لوگ اے این ایف کا یہ دعویٰ ماننے کیلئے تیار نہیں ہیں‘ لوگ کہتے ہیں رانا ثناء اللہ کو ان خیالات کی سزا بھگتنا پڑ رہی ہے، رانا صاحب 13 مئی کو آخری بار ہمارے پروگرام میں آئے تھے‘ رخصت ہوتے وقت انہوں نے مجھ سے کہا تھا‘ یہ شاید آپ کے ساتھ میرا آخری پروگرام ہو‘ میں نے وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا میرے خلاف کوئی ثبوت نہیں مل رہا‘ مجھے خطرہ ہے میں اگر گرفتار نہ ہوا تو مجھے مروا دیا جائے گا‘ رانا ثناء اللہ کو صرف شک نہیں تھا بلکہ انہیں اس کا یقین بھی تھا چناں چہ انہوں نے اپنے گارڈز بھی تبدیل کر لیے تھے اور اپنی سیکورٹی بھی بڑھا دی تھی اور اس سے ان کے اردگرد موجود تمام لوگ واقف تھے لہٰذا کوئی شخص اے این ایف کے موقف سے اتفاق نہیں کرے گا‘ یہ کیس بھی فیوچر میں نواز شریف کے ہائی جیکنگ کیس اور چودھری ظہور الٰہی کے خلاف بھینس چوری کا مقدمہ ثابت ہوگا‘ یہ گرفتاری ریاست اور حکومت دونوں کو اخلاقی لحاظ سے کمزور کردے گی۔ کیا اے این ایف رانا ثناء اللہ کے خلاف الزام ثابت کر سکے گی اور کیا یہ گرفتاری کسی جرم کی وجہ سے ہوئی یا پھر یہ بھی سیاسی گرفتاری ہے؟