دنیا میں ہزاروں زبانیں ہیں اور ان زبانوں میں ایک زبان حکیموں کی بھی ہے‘ یہ ایک لمبا چوڑا نسخہ لکھیں گے‘ مریض وہ نسخہ لے کر پنساری کی دکان پر جائے گا اور پتہ چلے گا حکیم صاحب نے دھنیے کا جوس تجویز کیا ہے‘
یہ لوگ سونف کو سونف نہیں لکھتے بیج بادیان لکھتے ہیں اور الائچی کو الائچی نہیں ہیل کلاں لکھتے ہیں لہٰذا کہا جاتا ہے حکیموں کی زبان صرف حکیم سمجھ سکتے ہیں کوئی نارمل انسان نہیں‘ آج اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس میں بھی یہی ہوا‘ اپوزیشن کے وفد بیٹھے اور حکیموں کی زبان میں گفتگو کرکے گھر چلے گئے‘ کوئی ٹھوس فیصلہ نہیں ہو سکا“ اے پی سی کا ایک اعلامیہ میرے سامنے پڑا ہے‘ زبان بڑی شفتہ اور سخت ہے لیکن اس نسخے کا کوئی لفظ پلے نہیں پڑ رہا‘ سوال یہ ہے آپ نے اگر کوئی واضح فیصلہ نہیں کرنا تھا تو پھر آپ نے اتنی ہائپ کیوں کری ایٹ کی تھی اور آپ نے اگر کوئی متفقہ لائحہ عمل تیار نہیں کرنا تھا تو پھر آپ کو اس طرح بیٹھ کر گلاس توڑنے کا کیا فائدہ ہوا‘ صرف ایک فائدہ ہوا‘ حکومت نے آپ کی غیر موجودگی کا فائدہ اٹھا کر 227 ارب روپے کے مطالبات زر منظور کرا لیے جس کے بعد لوگ پوچھ رہے ہیں اپوزیشن نے کہیں یہ اے پی سی حکومت کو بجٹ پاس کرانے کا موقع دینے کے لیے تو نہیں بلائی تھی‘ ہمیں بہرحال ماننا ہوگا اس اے پی سی کا حکومت اور اختر مینگل کو فائدہ ہوا اور اپوزیشن کو نقصان‘ یہ ثابت ہو گیا اپوزیشن کے پاس کوئی لائحہ عمل نہیں ہے‘ یہ خبر گردش کر رہی ہے کہ اپوزیشن نے سینٹ کے چیئرمین کو ہٹانے کا فیصلہ کر لیا ہے‘ کیا یہ ہو سکے گا اور بجلی مزید دس پیسے فی یونٹ‘ گیس دو سو فیصد اور ڈالر کی قیمت میں ایک دن میں سات روپے20 پیسے اضافہ ہو گیا‘ یہ ملک کیسے چلے گا؟