اسلام آباد(این این آئی)قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف آئندہ مالی سال کے بجٹ کو عوام دشمن قرار دے کر مسترد کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کا بجٹ آئی ایم ایف کا بجٹ ہے ،حکومت بجٹ واپس لے کر عوامی خواہشات کی عکاسی کرنے والا بجٹ دوبارہ پیش کرے، عمران خان نے کنٹینر پر کہا تھا ریونیو 8 ہزار ارب پر لے جاؤں گا۔
یہ تو 4 ہزار ارب کا ٹارگٹ بھی پورا نہ کر سکے تو 5 ہزار 500 ارب کے ٹیکس کا ہدف کہاں سے پورا کریں گے، جس وزیراعظم کے قول و فعل میں اتنا شید تضاد ہواس پر قوم کیا دنیا کس طرح اعتماد کریگی، بجٹ میں 5500 کے ریونیو ٹارگٹ کیلئے 70 فیصد بلاواسطہ ٹیکسز ہیں، یہ نیا پاکستان بنانے آئے تھے، بدترین اقدامات سے پاکستان کو معاشی جہنم بنا رہے ہیں،مہنگائی نے غریب آدمی کی زندگی اجیرن کردی ہے، ہم نے حکومت سنبھالی تو مہنگائی کی شرح 12 فیصد تھی، دن رات محنت کی مہنگائی کی شرح 12 فیصد سے کم کرکے 3 فیصد پر لائے،گھی اور تیل پر ٹیکس واپس لیا جائے، مزدور کی کم سے کم اجرت 20 ہزار روپے کی جائے، گریڈ 16 تک کے ملازمین کی تنخواہ میں 50 فیصد تک اضافہ کیا جائے اور ایک لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ والوں کو ٹیکس سے استثنیٰ دیا جائے،بجلی گیس قیمتوں کو 31 مئی پچھلے سال پر لایا جائے،گھی خوردنی تیل پر سے ٹیکس ختم کیا جائے ،ادویات کی مفت فراہمی یقینی بنایا جائے ،پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کو پورے پاکستان میں پھیلایا جائے،برآمدات کو زیرو ریٹ کیاجائے ،ٹیکس ریفنڈ کا سہل نظام بنایاجائے، پی ٹی آئی سے چارٹر آف اکانومی کیلئے تیار ہیں، عمران خان الزام تراشی چھوڑ کر ملکی ترقی کی بات کریں۔
وزیراعظم ملکی ترقی کیلئے ایک قدم بڑھائیں گے تو اپوزیشن دو قدم آگے بڑھائے گی،عمران خان نیازی صاحب پشاور میں کہتے تھے جنگلا بس 70ارب میں بنی اور اس میں بدترین کرپشن ہوئی ہے، میں کبھی پشاور میں میٹرو بس نہیں بنائوں گا چاہے وفاقی حکومت فنڈز کیوں نا دے دے،یہ پیسہ تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں پر لگائیں گے پھر اچانک میٹرو کا اعلان کردیا، سرکاری گرانٹ کو مسترد کرکے ایشین ڈیویلپمنٹ بینک اور دویگر اداروں سے قرض لے لئے۔
میں کمیشن کو کہتاہو ں اس قرض کی کیا وضاحت ہے ، کمیشن بنا ہے بڑے شوق سے قرضوں کی تفصیل لے کر جائیں، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی بھی جائیگی ، تحریک انصاف کی حکومت یومیہ 19 ارب روپے قرض لے رہی ہے،شروعات بی آر ٹی پشاور سے ہونی چاہیے،آصف زرداری، خواجہ سعد رفیق، محسن داوڑ اور علی وزیر ہزاروں ووٹ لے کر اسمبلی میں آئے ، فوری پروڈکشن آر ڈر جاری کئے جائیں ،امید ہے اسپیکر ان ارکان کو ایوان میں لائیں گے، چیئر مین نیب کے ویڈیو اسکینڈل معاملے پر پارلیمانی کمیشن بنایا جائے ، آئی ایم ایف سے ہونے والا معاہدہ پارلیمنٹ میں لایا جائے۔
بدھ کو قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر اسد قیصر کی سربراہی میں ہوا تقریباً 3 روز کی ہنگامہ آرائی کے بعد اسمبلی اجلاس کا ماحول بہتر رہا ۔آئندہ مالی سال 2019-20کے بجٹ میں بحث کا آغاز کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہاکہ خدا خدا کرکے یہ موقع آیا کہ ہم ایک دوسرے کی بات سنیں، گزشتہ دنوں میں ایوان کا جو وقت ضائع ہوا وہ اس ایوان کے منافی ہے۔شہباز شریف نے کہاکہ گزشتہ روز حکومتی بنچوں سے کہا گیا کہ پی ٹی آئی اپوزیشن میں تھی تو انہوں نے ہمیشہ لیڈر آف ہائوس کو سکون سے سنا۔
میں حکومتی بنچوں کی اس بات کو حقائق کی بنیاد پر مسترد کرتا ہوں،پنجاب اسمبلی میں جب ہماری حکومت تھی آخری تین بجٹ پر پی ٹی آئی کی اپوزیشن نے طوفان بدتمیزی مچایا،ہم نے نہایت تحمل و برداشت سے اس وقت کو گزارا۔ شہباز شریف نے کہاکہ حکومتی بنچز سے ہنگامہ انگیز باتیں ہوئی،حکومتی بنچز سے جو باتیں کی گئی ان سے اختلاف ہے۔ انہوںنے کہاکہ بجٹ سے عوام کی توقعات ہوتی ہیں اس کے تقاضے پورے کیے جائیں۔
ہم بھرپور تعاون کریں گے تاکہ ایوان کو ٹھیک طرح سے چلایا جائے۔انہوںنے کہاکہ 2013 میں عوام کے اصلی ووٹوں سے مسلم لیگ (ن) کی حکومت منتخب ہوئی تو پہلا چیلنج بجلی کی لوڈشیڈنگ تھی جو جنرل مشرف کے دور سے چلی آرہی تھی۔انہوں نے کہا کہ جنرل مشرف نے کچھ مشینیں رکھ کر فیتا کاٹ کر کہا کہ میں نے بھاشا ڈیم کا سنگ بنیاد رکھ دیا جبکہ قوم جانتی تھی کہ سنگ بنیاد دور کی بات ہے بلکہ اس کی زمین کیلئے ایک دمڑی تک مہیا نہیں کی گئی تھی۔
صرف لوگوں کو ورغلانے اور دھوکے کے ساتھ اس ڈیم کا سنگ بنیاد رکھنے کی کوشش کی تاہم عوام نے انتخابات نے انہیں مسترد کردیا جبکہ اسی طرح پاکستان کے لیے ضروری منصوبوں پر بھی کوئی کام نہیں ہوا۔شہباز شریف نے کہا کہ جب ہمیں ذمہ داری سونپی گئی تو بجلی کا بحران ایک چیلنج تھا اور میں نے جذبات میں آکر کہا کہ اللہ نے ہمیں موقع دیا تو ہم 6 ماہ میں بجلی کا مسئلہ ختم کردیں گے کیونکہ یہ میری خواہش تھی، تاہم اللہ نے ہماری مدد کی لیکن پی ٹی آئی کی اپوزیشن نے بدترین افراتفری اور سازش کا جال بنا۔
اس کی گواہی پوری قوم دیگی کہ کس طرح 7 مہینے ڈی چوک پر افراتفری کا ماحول رہا اور ملکی معیشت کو منفی ہتھکنڈوں سے تباہ کرنے کی کوشش کی گئی۔اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ستمبر 2014 میں چینی صدر پاکستان آرہے تھے اور حکومت نے کوشش کی کہ ان کا دورہ ہوجائے اور پی ٹی آئی کی اپوزیشن کے تمام سازشوں، افراتفری، منفی ہتھکنڈوں کے باوجود درخواست کی گئی کہ 3 دن کیلئے ڈی چوک سے اٹھ جائیں لیکن بات نہیں مانی گئی اور چینی صدر کا دورہ ملتوی ہوگیا۔
قائد حزب اختلاف نے کہا کہ چینی صدر کے دورے کو ملتوی کروانے کا پی ٹی آئی کا فیصلہ ملک دشمنی کے مترادف تھا یہ وہ وجوہات تھیں جس کی وجہ سے ہمیں یہ چیلنجز قبول کرنے پڑے اور پھر چینی صدر کا دورہ 7 ماہ کی تاخیر سے ہوا۔انہوں نے کہاکہ دنیا میں پاکستان کے چند دوست ہیں، سعودی عرب، ترکی، چین ہمارے بہترین دوستوں میں شامل ہوتے ہیں لیکن اس دور میں جب دہشت گردی، افراتفری اور بجلی کے بحران نے پنجے گاڑ رکھے تھے۔
اس وقت چین ہماری مدد کو آیا اور نواز شریف کے ساتھ مل کر پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کا معاہدہ کیا اور اس کے ذریعے 60 ارب ڈالر پاکستان کے حوالے کیے اور ملک میں منصوبے بنائے گئے۔شہباز شریف نے کہاکہ یہ بجٹ عوام کے لیے مایوسی، انہیں اندھیرے میں ڈالنے کا پیغام، روزگار چھینے، بیواؤں کا رزق چھینے، مریضوں کی دوائی چھینے، طالبعلموں کا حق چھیننے آیا ہے، ہم اس عوام اور پاکستان دشمن بجٹ کو فی الفور رد کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بجٹ ظلم کی تلوار ہے جو معاشی طور پر عام آدمی کی گردن کاٹنے کیلئے آیا ہے، یہ کسان کی روٹی اس سے چھیننا چاہتا ہے، اگر عوام کی خیر خواہی کیلئے بجٹ بنانا ہوتا تو یہ 5 شعبوں پر توجہ لازمی ہونی چاہیے تھی جس میں سب سے پہلے نوجوانوں کیلئے ملازمت کو دیکھتے، مہنگائی کو اور کم کرتے، جی ڈی پی کو بڑھاتے، کاروبار اور برآمدات کو بڑھاتے اور سماجی اور معاشی انصاف کو دیکھنا چاہئے تھا۔انہوں نے کہا کہ بجٹ میں یہ 5 اہم شعبے غائب ہیں اور یہ بجٹ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے مشاورت سے نہیں بنا بلکہ آئی ایم ایف نے پاکستان کے لیے بنایا ہے۔
شہباز شریف نے کہاکہ آئی ایم ایف کے پے رول پر پاکستان کے اہم اداروں میں بٹھائے گئے لوگوں کو کیا پتہ کہ یتیم بچہ یا بیوہ کس طرح زندگی بسر کر رہے ہیں، انہیں کیا معلوم کے ہسپتالوں میں ادویات مل رہیں یا نہیں، یہاں کہ تعلیمی ضروریات کا انہیں کیا پتہ جبکہ انہیں بیروزگاری کے بارے میں کیا پتہ کیونکہ وہ تو صرف ایک بات جانتے ہیں کہ ترقیاتی رقوم کو کم کرنا، پریمیئم ریٹ بڑھانا ہے چاہے اس سے غریب آدمی کی چیخیں نکل جائیں۔
انہوں نے کہا کہ اْن لوگوں کو غریب آدمی کی پرواہ نہیں، انہیں صرف اپنے مقررہ پیٹرن کی پیروی کرنا ہے، جس کی مثال مصر اور وینیزویلا ہے، آئی ایم نے وینزویلا کی معیشت کا بھتہ بھٹا دیا، یہ بجٹ عوام کی موم بتی کے چراغ کو گل کرنے اور ان کی امیدوں کو قتل کرنے آیا ہے۔قائد حزب اختلاف نے کہا کہ تحریک انصاف حکومت کا اپنا ہدف تھا کہ لیکن رواں مالی سال میں ریونیو کے ہدف میں 500 ارب روپے کا فرق ہے جبکہ عمران خان نے کنٹینر پر کھرے ہوکر کہا تھا کہ اگر میری حکومت آئی تو آمدنی کا ہدف 8 ہزار ارب روپے پر لے جاؤں گا۔
تاہم یہ تو 4 ہزار ارب کا ہدف پورا نہیں کرسکے تو آئندہ مالی سال کیلئے رکھا گیا ساڑھے 5 ہزار ارب کا ٹارگٹ کیسے پورا کریں گے۔لیگی صدر نے کہاکہ حکومت کی 10 ماہ میں یہ کارکردگی ہے کہ ہماری حکومت نے جو ہدف پورا کیا تھا اس میں بھی 500 ارب کا ہول موجود ہے جبکہ ہمیں کہا جاتا کہ ہم بلاواسطہ ٹیکس لگاتے ہیں لیکن انہوں نے آج کیا کیا۔تحریک انصاف پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ یوٹرن کے ماسٹر ہیں اور اپنی بات کی اپنے عملی اقدام سے تردید کرتے ہیں۔
یہ 5500 کا جو آمدنی کا ہدف ہے اس میں 70 فیصد بلاواسطہ ٹیکس ہیں، پاکستان کو جو جنت بنانے آئے تھے وہ ان اقدامات سے اسے معاشی جہنم کی طرف دھکیل رہے ہیں۔انہوںنے کہاکہ ہمارے دور میں بڑے پیمانے پر مینوفکچرنگ کے شعبے میں شرح پیداوار ساڑھے 6 فیصد تھی تاہم اس حکومت کے 10 مہینوں میں بدترین نااہلی کی وجہ سے یہ شرح منفی 2 ہوگئی ہے، یہ ان کے اپنے اعداد و شمار ہیں۔شہباز شریف نے کہا کہ آج کل مرغی اور انڈوں کی باتیں بہت ہوتی ہیں، جو مرغی آپ ذبح کردیں گے تو انڈے کہاں سے آئیں گے۔
اس طرح بڑے مینوفکچرنگ شعبے کی پیداوار ہی جب منفی 2 ہوگئی ہے تو اس سے ٹیکس کہاں سے لیں گے۔انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال میں پی ٹی آئی حکومت نے 2 مرتبہ منی بجٹ پیش کیے، لہٰذا یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ یہ پھر تیسرے مہینے آئی ایم ایف کے پاس جائیں گے کہ ہم ہدف پورا نہیں کرسکے، آپ ہمیں استثنیٰ دیں، پھر ایسے سخت قومی مفاد پر سمجھوتہ کریں گے جس سے پاکستان کے معاشی و سیاسی صورتحال مزید خراب ہوتی جائے گی۔صوبائی فنڈز کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت کا احتجاج رہا کہ وفاق سے فنڈ نہیں مل رہے جبکہ وفاقی حکومت نے 10 ماہ میں جو ٹیکس وصولی کی اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کہیں بھی نئے منصوبے کی ایک اینٹ بھی نہیں رکھی۔
انہوں نے کہا کہ میں ان لوگوں کو اسپیکر کے توسط سے ایک گولڈ میڈل دینا چاہتا ہوں کہ ہمارے دور کے منصوبوں پر تختیاں اکھاڑ کر یہ لوگ اپنی تختیاں لگانے کیلئے دست و گریبان ہیں، منصوبے تو یہ بنا نہیں سکے تو اب یہ قوم کو اسی طرح اپنی کارکردگی دکھا رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ مجھے خود حیرانی ہوئی کہ پی ٹی آئی اور اس کی قیادت ہمیشہ ڈھنڈورا پیٹتی تھی کہ پی ٹی آئی پاکستان میں سوشل سیکٹر یعنی تعلیم اور علاج کے معاملے میں چمپئن ہے۔
عمران خان سے لے کر پوری پی ٹی آئی کہتی تھی کہ میگا پروجیکٹس کک بیکس، کمیشن اور کرپشن کے لیے بنائے جاتے اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت تعلیم اور صحت پر توجہ نہیں دیتی لیکن خود ان کے طرز عمل نے کئی سوالات کو جنم دیدیا۔شہباز شریف نے کہا کہ اگر مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے میگا منصوبے کک بیکس کیلئے بنائے تو بتایا جائے کہ انہوں نے اس بجٹ میں دو ایل این جی منصوبوں کو بیچنے کا پروگرام کیوں رکھا ہے، ہمارے دور کے بنائے ہوئے 2 بجلی کے منصوبوں کو انہوں نے نجکاری کیلئے سرفہرست رکھا ہے۔
اگر کسی منصوبے میں کک بیکس ہوں تو عمران خان ان کی تحقیق کریں گے یا بیچنے کے لیے ڈال دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں تعلیم اور ہسپتالوں سے متعلق انقلاب کا بتایا جاتا تھا تاہم 2013 سے 2018 تک ایک نئی یونیورسٹی اور ہسپتال نہیں بنایا۔اس پر اسپیکر اسد قیصر نے شہباز شریف کی بات کاٹتے ہوئے کہا کہ آپ کے علم میں یہ بات لانا چاہتا ہوں کہ خیبرپختونخوا میں 7 یونیورسٹیاں بنائیں گئیں جبکہ میں نے اپنے ضلع صوابی میں 2 یونیورسٹیاں اور میڈیکل کالج و ہسپتال بنایا۔بجٹ تجاویز پر انہوں نے کہا کہ عمران خان نے بلند و بانگ دعووں کے برعکس ہمارے دور میں تعلیم ک 97 ارب روپے کے بجٹ میں 20 ارب روپے کم کردیے اور 77 ارب روپے مختص کیے ہیں۔
اسی طرح صحت کے شعبے کا وفاقی بجٹ 13 ارب سے کم کرکے 11 ارب روپے کردیا گیا، اس سب کے بعد اس میں کوئی شک نہیں رہ جاتا کہ یہ یوٹرن کے ماسٹر ہیں اور یہی ان کا اوڑھنا بچھونا ہے۔میٹرو بس پر تنقید کا جواب اور بی آر ٹی پشاور پر تنقید کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ عمران خان نیازی کہتے تھے کہ یہ جنگلہ بس 70 ارب روپے میں بنا ہے اور اس میں بدترین کرپشن ہوئی ہے اور میں پشاور میں بی آر ٹی اور میٹرو بس کبھی نہیں بناؤں گا چاہے مجھے وفاقی حکومت گرانٹ ہی کیوں نہ دیتے بلکہ یہ پیسا یونیورسٹیوں اور صحت پر لگاؤ گا۔
انہوں نے کہا کہ پھر 2016، 2017 میں بی آر ٹی پشاور کا اعلان ہوگیا اور قرضہ جات کی تحقیقات کیلئے جو کمیشن بنایا ہے اس میں قرضہ جات کی پہلی کھیپ خیبرپختونخوا کی جانی چاہیے کیونکہ بی آر ٹی کے اعلان کے بعد وفاقی حکومت کو رد کرکے ایشیائی ترقیاتی بینک سے اربوں روپے کا قرضہ لیا۔انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت پیسے اور وہ گرانٹ دینے کو تیار تھی جو صوبوں کو دی جاتی ہے تو پھر اس کو مسترد کرکے ایشیائی ترقیاتی بینک اور فرانسیسی حکومت سے قرض لیے، لہٰذا اس معاملے کو کمیشن کے سامنے پیش ہونا چاہیے۔
شہباز شریف نے کہا کہ آج یہ بی آر ٹی کھنڈرات کا منظر پیش کررہا ہے، 38 ارب سے شروع ہونے والا یہ منصوبہ ایک کھرب تک پہنچا جاتا ہے، صوبائی حکومت کے ادارے نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ میں تکنیکی طور پر غلطیاں ہوئی ہیں اور اس میں کرپشن ہوئی ہے جبکہ پشاور ہائی کورٹ نے کہا کہ بلیک لسٹڈ کنٹریکٹر کو اس کا ٹھیکا کیوں دیا۔انہوں نے کہا کہ میٹرو لاہور، ملتان، راولپنڈی و اسلام آباد کے تقریباً 70 کلو میٹر کے منصوبے 100 ارب میں جبکہ اکیلا پشاور میٹرو 100 ارب روپے میں ہوگیا ہے یہ تحریک انصاف کی کارکردگی ہے۔
قائد حزب اختلاف نے کہا کہ اگر ایسا ہم نے کیا ہوتا تو نیب ہمارے خلاف ایک اور ریفرنس بنا کر بھیج چکا ہوتا، اس معاملے میں اب نیب جانے اس کا کام جانے، ساتھ ہی انہوں نے بس ریپڈ ٹرانسپورٹ سسٹم کو بگیسٹ رابری ان ٹرانسپورٹ سسٹم قرار دیدیا۔قرضوں سے متعلق بات کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ ہم پر یہ الزام لگایا گیا کہ ہم نے بے پناہ قرضے لیے ہیں، آج ان قرضوں کے بوجھ کا دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرنا چاہتا ہوں تاکہ حقیقت پوری قوم کے سامنے آجائے۔
انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کے اعداد و شمار کے مطابق ہم نے اپنے دور 2013 سے 2018 تک 10 ہزار 600 ارب روپے قرض لیا، 31 مئی 2018 کو یہ قرض اور گزشتہ ادوار کے قرضوں کو شامل کرکے قرضوں کا مجموعی حجم 24 ہزار 952 ارب روپے تھا تاہم انہوں نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے کیا کارکردگی دکھائی اور انہوں نے کتنا قرض لیا، ہم نے جو قرض لیے اس میں تاریخی کام ہوئے۔
جس میں 11 ہزار میگاواٹ بجلی کے منصوبے، گوادر بندرگاہ کی تعمیر، 1700 کلو میٹر موٹروے، 8 ہزار کلومیٹر شاہراہیں، ایل این جی ٹرمنلز، ملکی تاریخ کا سب سے بڑا 2200 میگا واٹ کا ایٹامک بجلی گھر کی بنیاد، بجلی ترسیل کی لائن، اورنج لائن ٹرین منصوبہ اور سندھ کی حکومت کے ساتھ مل کر تھرکول پاور و دیگر منصوبے شامل ہیں۔اس موقع پر انہوں نے الزام لگایا کہ کیا کہ نیب اور تحریک انصاف کی حکومت میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔
یہ کمیشن بنا ہے اس میں بڑے شوق سے قرضوں کی تفصیل لے کر جائیں، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی بھی جائیگی لیکن اس کی شروعات بی آر ٹی پشاور سے ہونی چاہیے۔ انہوں نے تحریک انصاف حکومت کی جانب سے لیے گئے قرضوں کا حوالہ دیا اور کہا کہ عمران خان نیازی کہتے تھے کہ کسی ملک سے قرض لینا قوم کی کمزوری کی نشانی ہے، بھکاری پن قوم کی عزت و غیرت پر سمجھوتہ ہے، وہ ٹھیک کہتے تھے لیکن ہوا کیا انہوں نے ان 10 ماہ میں 5 ہزار ارب روپے کے قرض لے لیے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے 5 سال میں جتنے قرضے لیے انہوں نے اس کے نصف صرف 10 ماہ میں لے لیے، اگر انہیں ایک سال مل گیا تو یہ ہمارے دور سے زائد قرض لے چکے ہوں گے۔
شہباز شریف نے کہا کہ عمران خان نے 50 لاکھ گھروں کا وعدہ کیا تھا جبکہ انہوں نے ہمارے منشور سے یہ پروگرام چرایا تھا لیکن ان کے دور 11 ماہ میں گھر تو دور ایک اینٹ بھی نہیں لگائی اور اس بجٹ میں اس منصوبے کے لیے کچھ نہیں رکھا۔شہباز شریف نے کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت یومیہ 19 ارب روپے قرض لے رہی ہے، یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ہمیں قرضوں کے الزام لگایا جاتے ہم اس کے لیے تیار ہیں لیکن یہ احتساب نہیں بلکہ انتقام ہے اور یہ قابل مذمت ہے۔
انہوں نے تحریک انصاف پر ووٹ چوری کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ اگر جعلی ووٹوں سے حکومت نہیں بنتی اور ہمیں موقع ملتا تو غریب کے لیے گھر بناتے اور قوم کو بتاتے کہ ہم نے وعدہ پورا کیا جبکہ تحریک انصاف کے وعدے آج ایک سوالیہ نشان ہیں۔ شہباز شریف نے کہاکہ بھارت سے بات چیت چاہتے ہیں مگرمذاکرات کی بھیک نہیں مانگنی چاہیے ۔ انہوںنے کہاکہ نوازشریف کو تو بھارت سے بات کرنے پر غدار قرار دیا جاتا رہا میں کسی کو نہیں کہوں گا ۔
انہوں نے کہاکہ کشمیری عوام پاکستانی پرچم میں دفن ہورہے ہیں ۔ انہوںنے کہاکہ آئی ایم ایف سے ہونے والا معاہدہ پارلیمنٹ میں لایا جائے ۔ انہوںنے کہاکہ فیٹیف بارے کیا شرائط آئی ایم ایف نے لگائی ہیں ان سے آگاہ کیا جائے ۔ انہوں نے کہاکہ یہاں فاشزم نہیں چلے گا ،یہ جمہوری ایوان ہے ۔ انہوں نے کہاکہ صحافی برادری کے معاشی قتل کے خلاف کھڑے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ حکومت احتساب کے نام پر انتقام لے رہی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ اگر حکومت نے بجٹ میں ترمیم نہ کی تو چلنے نہیں دیں۔