ہم پاکستانیوں اور ہمارے ملک پاکستان کو ضد سوٹ نہیں کرتی‘ ہم نے جب بھی ضد کی ہمیں اس کا نقصان ہوا‘ 1970ء میں الیکشن ہوئے‘ بھٹو صاحب ضد لگا کر بیٹھ گئے‘ میں اپوزیشن میں نہیں بیٹھوں گا‘ حکومت بناؤں گا‘ دوسری طرف شیخ مجیب الرحمن بھی اڑ گئے‘ نتیجہ کیا نکلا‘ ملک ٹوٹ گیا‘ آپ اس کے بعد اب تک کی تاریخ ملاحظہ کر لیجئے‘ آپ کو ضد کے ہاتھوں لوگ‘ حکومتیں اور ملک تباہ ہوتا نظر آئے گا‘
بھٹو کی ضد انہیں پھانسی تک لے گئی‘ جنرل ضیاء الحق ضد کے ہاتھوں شہید ہو گئے‘ بے نظیر بھٹو کی دو اور میاں نواز شریف کی تین حکومتیں ضد کی نذر ہو گئیں اور جنرل پرویز مشرف آج ضد کی وجہ سے ملک بدر ہیں اور اب شیخ رشید ضد پر اڑ گئے ہیں‘ یہ ملکی تاریخ میں پہلی بار وزیر کی حیثیت سے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا حصہ بننا چاہتے ہیں، شیخ رشید کی اس ضد کے نتیجے میں اپوزیشن بھی اکٹھی ہو چکی ہے اور پاکستان تحریک انصاف کے اندر سے بھی مخالفت شروع ہو گئی ہے۔ اس ضد کا کیا نتیجہ نکلے گا؟ اپوزیشن تمام کمیٹیوں سے مستعفی ہو جائے گی اور یہ قومی اسمبلی نہیں چلنے دے گی‘ کیا حکومت کویہ خطرہ نظر نہیں آ رہا‘ یہ اس ضد پر کیوں اڑگئی ہے اور کہیں حکومت اپوزیشن کی توجہ اصل مسائل یعنی بجلی‘ گیس اور مہنگائی سے ہٹانے کیلئے پی اے سی کی گرد تو نہیں اٹ رہی‘ یہ ہمارا آج کا ایشو ہوگا جبکہ آج وزیراعظم نے مہنگائی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ بتا دی، کیا واقعی یہ مشکل وقت گزر جائے گا اور قوم کا مستقبل روشن ہے اور اب این آراو نہیں ہوگا خواہ سعودی عرب ملک میں 20 بلین ڈالرز کی سرمایہ کاری ہی کیوں نہ کر دے‘ ہم یہ بھی ڈسکس کریں گے اور سعودی عرب کے ولی عہد پرنس محمد بن سلمان دو روزہ دورے پر پاکستان تشریف لا رہے ہیں‘ حکومت نے ان کے قیام کیلئے ایک بار پھر نیشنل یونیورسٹی بند کر دی‘ ہم اس پر بھی بات کریں گے‘ ہمارے ساتھ رہیے گا۔