اسلام آباد (این این آئی)چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کراچی میں پولیس کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والی بچی امل کی ہلاکت پر لیے گئے ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران مقتولہ کے والدین کو مخاطب کر کے ریمارکس دئیے ہیں کہ معذرت چاہتا ہوں کہ اس معاملے کو ختم نہیں کرسکا۔ جمعرات کو سپریم کورٹ میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے امل ہلاکت کیس کی سماعت کی۔
دوران سماعت سپریم کورٹ کی تشکیل کردہ تحقیقاتی کمیٹی کی پیش کی گئی رپورٹ کا جائزہ لیا گیا، جس کے بارے میں ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے بتایا کہ کمیٹیوں نے 4 زاویوں سے معاملے کو دیکھا ہے جس پر چیف جسٹس نے انہیں ہدایت کی کہ آپ رپورٹ سے متعلق ہمیں تفصیلات بتائیں جس پر ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے کہا کہ رپورٹ کے مطابق پولیس نے اپنی غیر ذمہ داری قبول کی ہے جبکہ امن فاؤنڈیشن ایمبولنس سروس نے بھی اپنی غلطی تسلیم کرلی۔رپورٹ میں کہا گیا کہ نیشنل میڈیکل سینٹر نے اپنی غلطی تسلیم کرنے سے انکار کیا، ہسپتال نے زخمی امل کو ہسپتال سے منتقلی کیلئے بنیادی سہولت فراہم نہیں کی تھی جبکہ ہسپتال انتظامیہ نے کمیٹی کے سامنے بھی جھوٹ بولا اور بچی کی موت کی تاریخ اور وقت بھی تبدیل کیا تاکہ یہ بات ثابت ہوجائے کہ بچی ہسپتال پہنچنے سے قبل دم توڑ چکی تھی۔ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے کہا کہ افسوس کی بات یہ ہے کہ سندھ ہیلتھ کمیشن نے بھی ہسپتال کے حق میں رپورٹ دی، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آیا این ایم سی کو رپورٹ پر جواب جمع کروانے کا وقت دیا جائے جس پر ایڈووکیٹ فیصل نے کہا کہ جی بالکل جواب لے لیں۔دوران سماعت چیف جسٹس نے والدین سے سوال کیا کہ کیا آپ اس مقدمے کی سماعت کراچی میں چاہتے ہے یا اسلام آباد میں؟ جس پر امل کی والدہ نے جواب دیا کہ بہتر ہے اس کیس کی سماعت اسلام آباد میں ہی ہو۔چیف جسٹس نے امل کی والدہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں معذرت چاہتا ہوں کہ اس معاملے کو ختم نہیں کرسکا، میں یہ بھی جانتا ہوں کہ آپ کی کوشش اب امل کی طرح دوسرے بچوں کو تحفظ فراہم کرنے کی ہے جس پر امل کی والدہ نے کہا کہ میں آپ اور پورے بینچ سمیت سب کا شکریہ ادا کرتی ہوں، بعدازاں عدالت نے کراچی پولیس، سندھ ہیلتھ کمیشن، امن فاؤنڈیشن اور این ایم سی ہسپتال سے جواب طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 10 روز کیلئے ملتوی کردی۔