بدھ‬‮ ، 27 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

ہزاروں قربانیاں ،اربوں ڈالرز کا معاشی نقصان لیکن بزدل امریکہ کا پھر بھی پیچھے سے وار، پاکستان کیخلاف ایسا قدم اٹھا لیاکہ آپ کو بھی شدید غصہ آئیگا

datetime 14  جنوری‬‮  2019
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

واشنگٹن(آن لائن)امریکی حکومت کی جانب سے افغان جنگ کے پْرامن اختتام کے لیے اسلام آباد کے ساتھ روابط کے فروغ کے باوجود امریکی کانگریس میں پاکستان کو امریکا کے اہم غیر نیٹو اتحادیوں کی فہرست سے خارج کرنے کے لیے بل پیش کردیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق مذکورہ بل حکومت کی طرح ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے کانگریس کے رکن اینڈی بگز نے پیش کیا جس میں اس فہرست میں دوبارہ شمولیت کے لیے نئی شرائط پیش کی گئیں۔

بل کے مطابق اگر کوئی امریکی صدر پاکستان کو دوبارہ اس فہرست میں شامل کرنا چاہے گا تو اسے کانگریس میں اس بات کی تصدیق پیش کرنی ہوگی کہ پاکستان کامیابی کے ساتھ ملک میں حقانی نیٹ ورک کے محفوظ ٹھکانوں اور آزادانہ نقل و حرکت روکنے کے لیے فوجی کارروائیاں جاری رکھے گا۔اس کے علاوہ صدر کے لیے اس بات کی یقین دہانی کروانا بھی ضروری ہوگا کہ پاکستان نے حقانی نیٹ ورک کے اہم رہنماؤں اور جنگجوؤں کی گرفتاری اور ان کے خلاف قانونی کارروائی میں اہم پیش رفت کی ہے۔چناچہ اتحادیوں کی اس فہرست میں دوبارہ شامل ہونے کے لیے کانگریس کے ایک اور تصدیق نامے کی ضرورت ہوگی کہ پاکستان نے حقانی نیٹ ورک کو پاکستانی سرزمین کے استعمال سے روکنے کا عہد پورا کیا اور افغانستان کے ساتھ مل کر پاک افغان سرحد پر عسکریت پسندوں کی نقل و حرکت روکنے کے لیے بھرپور تعاون کیا۔امریکی قانون سازی پیش کردہ ایچ۔ آر۔ 73 نامی یہ قرار داد ضروری کارروائی کے لیے ایوان کی کمیٹی برائے امورِ خارجہ کو ارسال کردی گئی۔واضح رہے کہ یہ قرداد پیش کرنے کے لیے اینڈی بگز کو کسی کا تعاون حاصل نہیں تھا البتہ اس قرار داد کی منظوری کے لیے انہیں نہ صرف امریکی حکومت بلکہ ڈیموکریٹس کی بھی کی بھرپور حمایت کی ضرورت ہوگی کیوں کہ ایوان میں ڈیموکریٹس اراکین کی اکثریت ہے۔

حال ہی میں دیے جانے والے بیانات میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے واضح طور پر افغانستان میں موجود 14 ہزار فوجی دستوں کی تعداد میں کمی کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔دوسری جانب کانگریس میں اور کانگریس کے باہر موجود سینئر ڈیموکریٹس نے بھی کہا تھا کہ امریکا شام اور افغانستان میں بظاہر نہ ختم ہونے والی جنگوں میں شامل نہیں رہ سکتا۔تاہم افغانستان سے فوجی انخلا سے قبل امریکی حکومت اس بات کو یقینی بنانا چاہتی ہے کہ انخلا کی صورت میں امریکا کی حمایت یافتہ افغان حکومت نہ گر جائے۔اس ہدف کی تکمیل کے لیے امریکا نے طالبان کی قیادت کے ساتھ مذاکرات کے سلسلے کا آغاز کردیا جس میں انہیں مستقبل میں کابل حکومت کے پارٹنر کے طور پر حصہ دار بنائے جانے کی امید ہے۔

موضوعات:



کالم



شیطان کے ایجنٹ


’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)

آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…