واشنگٹن(آن لائن)امریکی حکومت کی جانب سے افغان جنگ کے پْرامن اختتام کے لیے اسلام آباد کے ساتھ روابط کے فروغ کے باوجود امریکی کانگریس میں پاکستان کو امریکا کے اہم غیر نیٹو اتحادیوں کی فہرست سے خارج کرنے کے لیے بل پیش کردیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق مذکورہ بل حکومت کی طرح ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے کانگریس کے رکن اینڈی بگز نے پیش کیا جس میں اس فہرست میں دوبارہ شمولیت کے لیے نئی شرائط پیش کی گئیں۔
بل کے مطابق اگر کوئی امریکی صدر پاکستان کو دوبارہ اس فہرست میں شامل کرنا چاہے گا تو اسے کانگریس میں اس بات کی تصدیق پیش کرنی ہوگی کہ پاکستان کامیابی کے ساتھ ملک میں حقانی نیٹ ورک کے محفوظ ٹھکانوں اور آزادانہ نقل و حرکت روکنے کے لیے فوجی کارروائیاں جاری رکھے گا۔اس کے علاوہ صدر کے لیے اس بات کی یقین دہانی کروانا بھی ضروری ہوگا کہ پاکستان نے حقانی نیٹ ورک کے اہم رہنماؤں اور جنگجوؤں کی گرفتاری اور ان کے خلاف قانونی کارروائی میں اہم پیش رفت کی ہے۔چناچہ اتحادیوں کی اس فہرست میں دوبارہ شامل ہونے کے لیے کانگریس کے ایک اور تصدیق نامے کی ضرورت ہوگی کہ پاکستان نے حقانی نیٹ ورک کو پاکستانی سرزمین کے استعمال سے روکنے کا عہد پورا کیا اور افغانستان کے ساتھ مل کر پاک افغان سرحد پر عسکریت پسندوں کی نقل و حرکت روکنے کے لیے بھرپور تعاون کیا۔امریکی قانون سازی پیش کردہ ایچ۔ آر۔ 73 نامی یہ قرار داد ضروری کارروائی کے لیے ایوان کی کمیٹی برائے امورِ خارجہ کو ارسال کردی گئی۔واضح رہے کہ یہ قرداد پیش کرنے کے لیے اینڈی بگز کو کسی کا تعاون حاصل نہیں تھا البتہ اس قرار داد کی منظوری کے لیے انہیں نہ صرف امریکی حکومت بلکہ ڈیموکریٹس کی بھی کی بھرپور حمایت کی ضرورت ہوگی کیوں کہ ایوان میں ڈیموکریٹس اراکین کی اکثریت ہے۔
حال ہی میں دیے جانے والے بیانات میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے واضح طور پر افغانستان میں موجود 14 ہزار فوجی دستوں کی تعداد میں کمی کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔دوسری جانب کانگریس میں اور کانگریس کے باہر موجود سینئر ڈیموکریٹس نے بھی کہا تھا کہ امریکا شام اور افغانستان میں بظاہر نہ ختم ہونے والی جنگوں میں شامل نہیں رہ سکتا۔تاہم افغانستان سے فوجی انخلا سے قبل امریکی حکومت اس بات کو یقینی بنانا چاہتی ہے کہ انخلا کی صورت میں امریکا کی حمایت یافتہ افغان حکومت نہ گر جائے۔اس ہدف کی تکمیل کے لیے امریکا نے طالبان کی قیادت کے ساتھ مذاکرات کے سلسلے کا آغاز کردیا جس میں انہیں مستقبل میں کابل حکومت کے پارٹنر کے طور پر حصہ دار بنائے جانے کی امید ہے۔