اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)کراچی کے سرکاری کالج میں قادیانی ٹیچر نے ارتدادی سرگرمیاں شروع کردیں۔ گورنمنٹ ڈگری گرلز کالج الیون آئی نارتھ کراچی میں مبشرہ طاہر نے لیکچر دیتے ہوئے قادیانی عقائد کی تبلیغ کی، جس سے طالبات میں اشتعال پھیل گیا اور انہوں نے استانی کو منع کیا، تاہم ٹیچر کی جانب سے عقیدہ ختم نبوت کے خلاف لیکچر پر نوبت ہاتھا پائی تک آگئی ۔
روزنامہ امت کے مطابق گزشتہ روز گورنمنٹ ڈگری گرلز کالج الیون آئی نارتھ کراچی میں قادیانی خاتون ٹیچر مبشرہ طاہر نے بی کام کی کلاس میں لیکچر دیتے ہوئے عقیدہ ختم نبوت کے متعلق قادیانی عقیدہ کے مطابق کہا کہ نبوت کا سلسلہ ختم نہیں ہوا ہے، نبی آتے رہیں گے۔کلاس میں 30 سےزائد طالبات تھیں، جس کے بعد طالبات نے انہیں منع کیا کہ ایسا نہیں ہے یہ غیر مذہب (غیر مسلموں) کا عقیدہ ہے، ہم مسلمانوں کا یہ عقیدہ نہیں ہے ،جس کے بعد بھی خاتو ن ٹیچر نے اس پر اصرار کیا اور اس کے بعد طالبات اور مذکورہ ٹیچر کے مابین سخت تلخ کلامی ہوگئی اور نوبت ہاتھا پائی تک آگئی، جس کے بعد دیگر خواتین اساتذہ نے بیچ بچاؤکرا کر خاتون ٹیچر مبشرہ کو گھر روانہ کیا، جس کے بعد وہ کالج دوبارہ نہیں آئی ہیں۔معلوم رہے کہ مذکورہ کالج میں ایک سال سے مبشرہ طاہر اردو کی لیکچرر تعینات ہے، جو روزانہ ملیر سے ناتھ کراچی کالج آتی ہے ۔گورنمنٹ گرلز کالج میں مجموعی طور پر آرٹس سائنس اور کامرس کی کلاسیں بی اے بی کام تک کی ہوتی ہیں۔مذکورہ کالج میں اساتذہ کی کل تعداد 26 ہے ،جبکہ طالبات کی مجموعی تعداد 1600 سے زائد ہے ۔کالج کی پرنسپل غزالہ جلیس کا کہنا ہے کہ مجھےان کے بارے میں علم تھا کہ قادیانی کمیونٹی سے ہیں ،میں نے انہیں منع کیا تھا کہ وہ بس اپنے کام سےکام رکھیں، تاہم میں دو روز سے چھٹیوں پر تھی کہ اس دوران کالج میں یہ واقعہ پیش ہے، تاہم میں آج کالج جاؤں گی۔
جس کے بعد معلومات لوں گی کہ اصل میں واقعہ کیوں اور کیسے پیش آیا ہے،تاہم میں نے جب مبشرہ طاہر سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میں جذباتی ہوگئی تھی،کیوں کہ طالبات نے مجھ سے سوالات کئے، جس کے بعد میں نے انہیں جوابات دیئے ہیں۔اس حوالے سے مبشرہ طاہر سے رابطہ کیا گیا، تو انہوں نے بات کرنے کے بجائے اپنے شوہر طاہر کو فون دے دیا، جس کے بعد ان کے شوہر طاہر کا کہنا تھا کہ ہماری ابھی کالج کی پرنسپل سے بات ہوئی ہے۔ آج بروز ہفتہ وہ دونوں کا موقف سن کر مزید بات کریں گے۔اس حوالے سے ریجنل ڈائریکٹر کالجز ڈاکٹر معشوق علی بلوچ اور سلیم غوری سے رابطہ کیا گیا، جنہوں نے فون ریسیو نہیں کیا ۔