اسلام آباد(آئی این پی ) چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے سابق وفاقی وزیر اعظم سواتی کے خلاف مقدمہ درج نہ کرنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ سینیٹر اعظم سواتی نے صرف وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی کے عہدے سے استعفیٰ دیا ، وزارت پر اب بھی ان کا نام چل رہا ہے، کیا وہ رکن اسمبلی رہنے کے اہل ہیں؟ ،سارا کیا دھرا اعظم سواتی کا ہے۔
آئی جی کو ٹیلی فون اعظم سواتی نے کئے تھے، جے آئی ٹی رپورٹ بھی اعظم سواتی کے خلاف ہے، آپ کو کس نے آئی جی بنایا ہے، آپ اعظم سواتی کو بچانے کے لئے بیٹھے ہیں۔ شرم تو ہمیں پولیس سے آرہی ہے،آئی جی اسلام آباد کے حوالے سے عدالت کا تاثر اچھا نہیں، بات نہ سننے والا ٹرانسفر ہو جائے گا اور بات ماننے والا تعینات ہوجائے گا، اعظم سواتی میرے جانے کے دن گن رہے ہیں۔ منگل کو چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ پاکستان میں اعظم سواتی کے خلاف انسپکٹر جنرل (آئی جی) اسلام آباد تبادلہ کیس کی سماعت کی ۔جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ اعظم سواتی نے استعفیٰ دیا ہے لیکن اب بھی وزارت پر اعظم سواتی کا ہی نام چل رہا ہے۔ ہم اس معاملے کو 62 ون ایف کے تحت دیکھ رہے ہیں اور یہ بھی دیکھیں گے کہ کیا وہ رکن اسمبلی رہنے کے اہل ہیں۔چیف جسٹس پاکستان نے آئی جی اسلام آباد سے استفسار کیا کہ آپ نے اب تک کیا کیا ہے ؟آئی جی اسلام آباد نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ہم نے اعظم سواتی کے بیٹے عثمان سواتی، نجیب اللہ جان محمد، فیض محمود اور جہانزیب کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔جسٹس ثاقب نثار نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جو سارا کرتا دھرتا ہے اس کے خلاف کچھ نہیں کیا گیا اس لیے کہ وہ بڑا آدمی ہے اور فون نہ سننے پرآئی جی کو تبدیل کر دیا گیا۔ اگر آپ نے لوگوں کو انصاف نہیں دینا تو پھر کس بات کے آئی جی لگے ہوئے ہو۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ غریب لوگوں کو مارا پیٹا گیا اور جے آئی ٹی رپورٹ میں آگیا کہ وزیر کے ساتھ پولیس نے خصوصی برتا ؤکیا ہے لیکن ہم مثال قائم کرنا چاہتے ہیں کہ بڑے آدمی چھوٹوں کو روند نہیں سکتے اس لیے یہاں ہر سزا ملے گی۔چیف جسٹس نے کہا کہ پولیس نے تو پرچہ درج کرنا نہیں، ہم اعظم سواتی کو 62 ون ایف کے تحت نوٹس کر دیتے ہیں۔جسٹس ثاقب نثار نے آئی جی اسلام آباد عامر ذوالفقار کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے بارے میں میرا تاثر بہت خراب ہو گیا ہے۔
آپ پھر مل گئے ہیں۔عدالتی معاون فیصل صدیقی سے استفسار کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ جے آئی ٹی نے کچھ معاملات میں نیب کو مداخلت کی سفارش کی ہے۔ کیا الیکشن کمیشن کے علاوہ کوئی ایسا فورم ہے جہاں اس معاملے کو بھیجا جائے۔عدالتی معاون نے موقف اختیار کیا کہ جے آئی ٹی کے مطابق ایف بی آر سے اعظم سواتی نے غلط بیانی کرتے ہوئے بڑے پیمانے پر ٹیکس چوری کیا ہے۔ جے آئی ٹی کے مطابق اعظم سواتی کی آمدن اور اثاثے آپس میں مماثلت نہیں رکھتے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس کیس میں اختیارات کا غلط استعمال ثابت ہو چکا ہے۔ اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچانا ہے تاہم کس جوڈیشل فورم نے اس مسئلے کودیکھنا ہے آپ بتادیں۔فیصل صدیقی نے عدالت کا آگاہ کیا کہ اعظم سواتی اور طاہرہ سواتی کی بیرون ملک سے آنے والی آمدن اور ان کے یہاں پر اثاثوں میں واضح فرق ہے جب کہ ایک ارب 57 کروڑ روپے کی رقم ان کے پاس موجود ہے اور بیرون ملک سے آنے والی رقم 90 لاکھ 70 ہزار ڈالر ہے۔فیصل صدیقی نے عدالت کو آگاہ کیا کہ اگر جائیداد کی معلومات درست نہیں دی گئی تو اس پر رکن پارلیمنٹ کی نااہلی بنتی ہے۔چیف جسٹس نے اعظم سواتی سے استفسار کیا کہ آپ کو تو امریکا میں داخلہ بند ہے ؟۔اعظم سواتی نے موقف اختیار کیا کہ میں نے خود 1996 میں امریکی شہریت ترک کر دی تھی تاہم اب میں نے امریکہ کے ویزے کے لیے درخواست دی ہوئی ہے کیونکہ بطور پاکستانی شہری مجھے امریکہ کا ویزا لینا پڑتا ہے۔