اسلام آباد(این این آئی)چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے ہیں کہ حکومت نیا بالاکوٹ شہر بنانے میں ناکام ہو چکی ہے، لوگ 12 سال سے ٹین کی چھتوں میں رہ رہے ہیں۔سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں بینچ نے 2005 میں پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں آنے والے زلزلے کے بعد علاقے میں بحالی کے کام کیلئے مختص فنڈ میں بے قاعدگیوں سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ نیو بالاکوٹ شہر کی تعمیر پر کتنا پیسہ خرچ ہو چکا ہے؟جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ قو می اقتصادی کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی (ایکنک) نے 12 ارب روپے کا منصوبہ 2007 میں منظور کیا، نئے شہر میں 3 ہزار 9 سو خاندان بسائے جانے تھے، زمین کے جھگڑوں کی وجہ سے شہر نہیں بن پایا، وہاں پر امن و امان کے مسائل ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ امن و امان اور زمین کے حصول کے مسائل کس نے حل کرنے تھے، پاکستان تحریک انصاف وہاں 5 سال سے حکومت کر رہی ہے۔ارتھ کوئیک ری کنسٹرکشن اینڈ ری ہیبلیٹیشن اتھارٹی (ایرا) کے نمائندے نے عدالت کو بتایا کہ ایرا ملازمین کی تنخواہوں پر 2.9 ارب روپے خرچ ہو چکے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 30 کروڑ سالانہ تنخواہیں جارہی ہیں کام کچھ نہیں کیا۔انہوں نے ریمارکس دیئے کہ امداد کی رقم بجٹ میں کیسے شامل کی جاسکتی ہے، عدالت کو اعداد و شمار کے چکر میں الجھایا جاتاہے، ایرا لوگوں کی زمینوں پر قبضے کرے گی تو وہاں مسائل تو ہوں گے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایک ٹوٹی پھوٹی سڑک بھی نہ بنا سکے، این ایچ اے 100 کروڑ ڈالر لے گئی، اگر بیوروکریسی سے کام نہیں ہوتا تو ملک چھوڑ دیں، کسی نے تو اس ملک میں ایمانداری سے کام کرنا ہے۔ نجی ٹی وی کے مطابق عدالت نے ریمارکس دیئے کہ حکومت نیا بالاکوٹ شہر بنانے میں ناکام ہو چکی ہے،
لوگ 12 سال سے ٹین کی چھتوں میں رہ رہے ہیں، ایرا کے برگیڈیئر صاحب تو صرف تنخواہ لیتے ہیں، 2 گاڑیاں ملی ہوئی ہیں وہ چلاتے رہتے ہیں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ مقامی لوگوں نے زمین دینے سے انکار کیوں کیا، جس پر مقامی افراد نے عدالت کو بتایا کہ 94 فیصد رقبہ ایرا کے پاس آچکا ہے۔25 اپریل 2018 کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار 2005 میں آنے والے زلزلے کی بحالی کے کاموں کا جائزہ لینے کے لیے بالاکوٹ روانہ ہوئے تھے۔