اسلام آباد(این این آئی ) سپریم کورٹ آف پاکستان نے توہین رسالت کے جرم میں سزائے موت پانے والی مسیحی خاتون آسیہ بی بی کو ناکافی شواہد کی بناء پر بری کردیا ہے۔ بدھ کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی خصوصی بینچ نے توہین رسالت کے الزام میں موت کی سزا پانے والی آسیہ بی بی کی درخواست پر فیصلہ سنایا۔
عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں حکم دیا کہ آسیہ بی بی اگر کسی دوسرے کیس میں مطلوب نہیں تو انہیں رہا کردیا جائے۔57 صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس ثاقب نثار نے تحریر کیا، جس میں جسٹس آصف سعید کھوسہ کا نوٹ بھی شامل ہے۔تحریری فیصلے کا آغاز کلمہ شہادت سے کیا گیا جبکہ فیصلے میں کئی قرآنی آیات اور علامہ اقبال کے شعر کا بھی حوالہ دیا گیا۔عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں باچا خان یونیورسٹی میں توہین کے الزام میں قتل کیے گئے طالب علم مشعال خان سمیت توہین مذہب کے دیگر کیسز کا بھی حوالہ دیا۔چیف جسٹس نے فیصلے میں لکھاکہ یہ قانون کا ایک مسلمہ اصول ہے کہ جو شخص کوئی کلیم (دعویٰ) کرتا ہے تو اس کو ثابت کرنا بھی اسی کی ذمہ داری ہوتی ہے، پس یہ استغاثہ کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ تمام کارروائی میں ملزم کے ارتکاب جرم کو ہر قسم کے شک و شبہ سے بالاتر ثابت کرے، تمام کارروائی مقدمہ میں ملزم کے ساتھ بے گناہی کا قیاس ہمیشہ رہتا ہے ٗ عدالتی فیصلے کے مطابق جہاں کہیں بھی استغاثہ کی کہانی میں کوئی جھول ہوتا ہے ٗ اس کا فائدہ ملزم کو دیا جانا چاہیے، جو کہ فوجداری انصاف کی محفوظ فراہمی کیلئے انتہائی ضروری ہے۔چیف جسٹس ثاقب نثار نے لکھاکہ شبہ جس قدر بھی مضبوط اور زیادہ ہو، کسی طور پر بھی فوجداری مقدمے میں ضروری بار ثبوت کی جگہ نہیں لے سکتا، ملزم اور گواہان/شکایت گزار کے مابین عناد کی موجودگی میں عام طور پر گناہ یا بے گناہی کو ثابت کرنے کے لیے اعلیٰ ترین معیارِ ثبوت کی ضرورت ہوتی ہے،
اگر استغاثہ کے گواہان ملزم کے لیے عناد رکھتے ہوں تو وہ شک کے فائدے کے اصول کی بناء پر بریت کا حقدار ہوتا ہے۔آخر میں چیف جسٹس نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ متذکرہ بالا وجوہات کی بناء پر یہ اپیل منظور کی جاتی ہے۔ عدالت عالیہ اور ابتدائی سماعت کی عدالت کے فیصلوں کو کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔نتیجتاً اپیل گزار کو دی گئی سزائے موت کو کالعدم قرار دیا جاتا ہے اور اس کو تمام الزامات سے بری کیا جاتا ہے۔ اگر کسی دیگر فوجداری مقدمے میں اس کو قید رکھنا مقصود نہیں تو اس کو فوری طور پر جیل سے رہا کیا جائیگا۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے نوٹ میں تحریر کیا کہ مقدمہ ہذا میں ہر واقعاتی زاویئے کے متعلق استغاثہ کی جانب سے پیش کردہ شہادتوں میں واضح اور یقینی تضادات سے یہ افسوسناک اور ناقابل انکار تاثر قائم ہوتا ہے کہ ان تمام افراد، جن کے ذمہ شہادتیں اکٹھی کرنا اور تفتیش کرنے کا کام تھا، نے ملی بھگت سے یہ طے کیا ہوا تھا کہ وہ سچ نہیں بولیں گے یا کم از کم مکمل سچائی کو باہر نہیں آنے دیں گے’۔انہوں نے لکھا کہ ‘حتیٰ کہ اگر مقدمہ ہذا میں اپیل گزار کے خلاف عائد الزامات میں ذرہ بھر بھی سچائی ہے۔
تب بھی استغاثہ کی شہادتوں میں بیان کردہ سنگین تضادات واضح طور پر ظاہر کرتے ہیں کہ مقدمہ ہذا میں سچائی کو بہت سی ایسی باتوں سے گڈمڈ کیا گیا ہے، جو سچ نہیں ہیں۔آخر میں جسٹس کھوسہ نے لکھاکہ جو کچھ بھی اوپر بیان کیا گیا ہے ٗ اس کی روشنی میں یہ نتیجہ اخذ کرنے میں کوئی عار نہیں کہ استغاثہ اپیل گزار کے خلاف اپنا مقدمہ بلا شک و شبہ ثابت کرنے میں ناکام رہی ہے، لہذا اپیل ہذا کو منظور کیا جاتا ہے، ذیلی عدالتوں کی جانب سے اپیل گزار کو دی گئی اور برقرار رکھی گئی سزا ختم کی جاتی ہے اور اس کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے الزام سے بری کیا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس مظہر عالم پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے کیس میں 8 اکتوبر کو محفوظ کیا گیا فیصلہ سنایا۔