پاکستان اور امریکا کے تعلقات آج شام ساڑھے سات بجے تک گہری دھند میں گم تھے لیکن پھر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی میڈیا ٹاک ہوئی اور چیزیں ایک سو اسی درجے پر تبدیل ہوگئیں، یوں محسوس ہوتا ہے مائیک پومپیو کا آج کے ساڑھے پانچ گھنٹے کا وزٹ نئے پاکستان میں نئے سفارتی تعلقات کی ایک نئی شروعات ہے لیکن سوال یہ ہے کیا یہ بریک تھرو آگے بھی چلے گا‘ کیا یہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجے گی اور مسلسل بجتی رہے گی‘
یہ فیصلہ آنے والے چند دنوں میں ہو گا‘ ابھی شاہ محمود قریشی افغانستان جائیں گے‘ پاکستان افغانستان کو کیا دیتا ہے یا پھر افغانستان کے ساتھ کس کس شعبے میں کتنا تعاون کرتا ہے‘ یہ تعلقات اس پر بیس کریں گے‘ پاکستان نے امریکا سے آج کہا ہمیں مغربی سرحد پر توجہ کے لیے مشرقی سرحد پر تعاون چاہیے یعنی آپ انڈیا کو روکیں‘ مائیک پومپیو انڈیا میں کیا کرتے ہیں اور یہ انڈین گورنمنٹ سے پاکستان کے لیے کتنی رعایت لیتے ہیں اور یہ واپس امریکا جا کر صدر ٹرمپ کو کیا رپورٹ دیتے ہیں یہ تعلقات اس پر بیس کریں گے لیکن ہم اگر امریکا کے ساتھ دیرپا یا مستقل تعلقات چاہتے ہیں تو پھر ہمیں امریکی صدر جان ایف کینیڈی کی ایک بات پلے باندھ لینی ہو گی‘ اس نے کہا تھا‘ کسی بھی ملک کی داخلہ پالیسی اس کی شکست کی وجہ بن سکتی ہے اور فارن پالیسی اسے مروا سکتی ہے اور ہماری یہ دونوں پالیسیاں کمزور ہیں چنانچہ ہم شکست بھی کھا رہے ہیں اور مر بھی رہے ہیں‘ ہمیں امریکا بلکہ دنیا کے تمام ملکوں سے دیرپا تعلقات کیلئے اپنی داخلہ اور خارجہ دونوں پالیسیوں کو ری شیپ کرنا ہوگا‘ ہمیں پاکستان کو اندرونی لحاظ سے ہر قسم کی خرابی اور برائی سے پاک کرنا ہو گا اور ہمیں بیرونی امداد کے نشے سے بھی باہر آنا ہوگا‘ ہم پھر ہی مائیک پومپیو جیسے لوگوں اور ان کی ڈومور سے باہر آ سکیں گے ورنہ کامیابی کے جتنے ڈھول بج رہے ہیں یہ چند دنوں میں افسوس میں تبدیل ہو جائیں گے۔ مائیک پومپیو کا آج کا دورہ کیسا تھا‘ وزیرخارجہ پہلا دورہ افغانستان کا کیوں کر رہے ہیں‘ کیا امریکا واقعی دل سے تعلقات آگے بڑھانا چاہتا ہے اور کیا امریکا نے ڈومور کا مطالبہ ختم کر دیا ہے اور یہ ہمارا موقف تسلیم کر چکا ہے‘ یہ تمام سوال ہمارے آج کے پروگرام کا حصہ ہوں گے‘ ہمارے ساتھ رہیے گا۔