اسلام آباد(سی پی پی)سپریم کورٹ نے جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کی تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم(جے آئی ٹی)بنانے کا فیصلہ کرلیا ،جے آئی ٹی ممبرز کے ناموں کا اعلان مناسب وقت پر کیا جائے گا،عدالت نے ٹرائل اسلام آبادمنتقل کرنے کی استدعا بھی مسترد کردی جبکہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ یہ چھوٹا موٹا سکینڈل نہیں ،لوگوں کے اکاؤنٹس میں رقم جمع کرانے والے فرشتوں کو تلاش کرنا ہے،جے آئی ٹی سندھ میں ہی کام کرے گی،جے آئی ٹی 15 روزہ رپورٹ سپریم کورٹ کو بھجوائے گی۔
جے آئی ٹی کی سیکیورٹی رینجرز کے حوالے کریں گے۔چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کی سماعت کی تو اس دوران ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے بیان ریکارڈ کراتے ہوئے بتایا کہ ایف آئی اے نے اومنی گروپ کراچی کے دفتر پر چھاپا مارا جس کے دوران کام کران کمپنی دبئی کی دستاویزات ملیں جس کے بعد کمپنی کے دبئی کے دفتر میں چھاپا مارا تو بیشمار فارن کرنسی اکاؤنٹس کا ریکارڈ ملا۔ڈی جی ایف آئی اے نے بتایا کہ دبئی کی کمپنی سے ملنے والے اکاؤنٹس بھی انہی کے خاندان (انور مجید فیملی)کے ہیں جب کہ ان اکاؤنٹس میں بھی پہلے اکاؤنٹس میں رقم جمع کرانے والے لوگ تھے اور دبئی سے رقم انگلینڈ اور فرانس بھی بھیجی گئی۔ڈی جی ایف آئی اے کے مطابق چھاپے کے دوران بہت سی ہارڈ ڈرائیوز بھی ملیں جن میں بہت سا ڈیٹا ہے۔اس موقع پر چیف جسٹس ثاقب نثار نے ڈی جی ایف آئی اے سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ڈی جی صاحب آپ جس کو پکڑتے ہیں وہ بیمار ہو جاتا ہے، اب تو جوان بچے بھی بیمار ہونے لگے ہیں۔ ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے بتایا کہ عبدالغنی مجید کو بواسیر کا مسئلہ ہے، عبدالغنی مجید آسائش کیساتھ رہنے والا آدمی ہے، ایف ائی اے لاک اپ اس قابل نہیں کہ بڑے لوگ رہ سکیں۔چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ انور مجید اور عبدالغنی مجید کو طبی معائنہ کیلئے یہاں لے کرآتے ہیں،سندھ سے میڈیکل چیک اپ کیوں کروائیں جہاں ان کے سورسزہیں۔
انہیں پنجاب یااسلام آباد کے پمز ہسپتال لے آتے ہیں۔چیف جسٹس نے پاکستان نے کہا کہ ملزمان جیل کی بجائے ہسپتالوں میں ہیں، ہم یہاں سے ایم آر آئی کرا لیں گے، وہاں تو ماشا اللہ وزیراعلیٰ ان سے بات کرتا ہے کہ جیل میں سہولیات ہوں، جیل سپرنٹنڈنٹ کے کمرے میں رہیں گے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا آپ کے پاس ایسے لوگ ہیں جو اس ڈیٹا کو چیک کرسکیں جس پر بشیر میمن نے کہا کہ ہمارا سائبر کرائم ونگ اس پر کام کررہا ہے، ڈیٹا بہت زیادہ ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ اس معاملے پر ہمیں جے آئی ٹی بنانی چاہیے اور جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ جے آئی ٹی بنانے پر کسی کو اعتراض تو نہیں۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کسی کو کیا اعتراض ہوگا، ملزمان کو تو کلین چٹ ملنا ہے، اس معاملے سے ملزمان کا تو تعلق ہی نہیں، اس موقع پر انور مجید فیملی کے وکیل شاہد حامد نے کہا کہ ہم نے جےآئی ٹی سے متعلق متفرق درخواست دی ہے اسے دیکھ لیں۔چیف جسٹس نے اس موقع پر کہا کہ وزیراعلی کی انور مجید کے ساتھ گفتگو بھی موجود ہے۔
کہا گیا کہ انور مجید وزیراعلی کے گھر پر رہ لیں، آپ باتیں رہنے دیں، ہم مقدمے کو پنجاب منتقل کر دیتے ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان نے وکیل سے مکالمے کے دوران کہا کہ ہم جعلی اکاؤنٹس کی پہلے کی گئی تحقیقات کے بجائے جے آئی ٹی سے تحقیقات کرالیتے ہیں، 35 ارب روپے کے فراڈ کا معاملہ ہے، شفاف تحقیقات چاہتے ہیں، آپ شرما کیوں رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم مزید انکوائری کے لیے جے آئی ٹی بنا دیتے ہیں، قوم کا بھی بنیادی حق ہے کہ اس کا لوٹا گیا پیسہ واپس لایا جائے۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ چھوٹا موٹا سکینڈل نہیں ہے ،لوگوں کے اکاؤنٹس میں فرشتے پیسے جمع کرا گئے،اکانٹس میں رقم جمع کرانے والے فرشتوں کو تلاش کرنا ہے،چیف جسٹس نے کہا کہ ٹرائل کورٹ کی کارروائی کو روک دیتے ہیں،35 ارب روپے کس کے تھے یہ رقم کدھر چلی گئی ، ہم کیس میں اب تک کی تفتیش ختم کر کے جے آئی ٹی سے تحقیقات کرا لیتے ہیں۔چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ منی لانڈرنگ کے معاملے پرجے آئی ٹی بنانے جارہے ہیں۔
جے آئی ٹی کی سیکیورٹی رینجرز کے حوالے کریں گے،جے آئی ٹی سندھ میں ہی کام کرے گی،جے آئی ٹی 15 روزہ رپورٹ سپریم کورٹ کو بھجوائے گی۔بشیر میمن نے تجویز دی کی کہ جے آئی ٹی میں ایف آئی اے، نیب اور ایس ای سی پی کانمائندہ شامل کیاجائے،جے آئی ٹی میں سٹیٹ بینک، ایف بی آر کانمائندہ بھی شامل کیاجائے،چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ جے آئی ٹی ارکان کے نام ہم تجویز کریں گے۔اعتزاز احسن نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جہاں پہلے سے تفتیش ہورہی ہو وہ معاملہ ٹرائل کورٹ بھیجا جاتا رہا ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ بہتر تفتیش کے لیے ماہرین پر مشتمل ٹیم بنانا چاہتے ہیں۔
اعتزاز احسن نے کہا پاناما معاملے میں سربراہ نیب نے تفتیش سے انکار کیا تھا، ایف آئی اے باصلاحیت ادارہ ہے، خود تحقیقات کرسکتا ہے، جے آئی ٹی میں ایسے افراد کو شامل نہ کیا جائے جن پر ملزمان کو اعتراض ہے۔اعتزاز احسن نے عدالت سے استدعا کی کہ جے آئی ٹی میں متعصب آدمی نہیں ہوناچاہیے ۔اس موقع پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کس شخص پر ذاتی اعتراض ہے جس پر وکیل اعتزاز احسن نے کہا کہ نجف علی مرزا پر ملزمان کو ذاتی اعتراض ہے۔
ایک ملزم نے نجف مرزا پر پہلے ایف آئی آر درج کرائی تھی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اعتراض ہے تو نجف مرزا کو جے آئی ٹی میں نہیں ڈالتے۔چیف جسٹس نے فاروق ایچ نائیک سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آصف علی زرداری اور فریال تالپور کو تو جے آئی ٹی پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے ، آصف زرداری اور فریال تالپور الزامات سے بری ہو کر کلین چٹ لے سکتے ہیں اور دونوں کلین چٹ لینے کے بعد ملک کی باگ ڈور سنبھال سکتے ہیں،ضروری نہیں کہ انور مجید اورعبدالغنی کو ہر بار بلایا جائے ۔
اربوں کا فراڈ ہوا ہے اور ہم سچ جاننا چاہتے ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ نجف کلی مرز اکو جے آئی ٹی کا رکن نہیں بنائیں گے اور نہ ہی ہم کسی کو پگڑیاں اچھالنے کی اجازت دینگے ۔اس موقع پر اٹارنی جنرل انورمنصور نے وزیراعظم سے ملاقات تک وقت دینے کی استدعا کی اور کہا کہ وزیراعظم سے ملاقات کے دوران اس معاملے سے متعلق پالیسی بنائی جائے گی۔ جس پر سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کو مہلت دیتے ہوئے کیس کی سماعت دو ہفتے کیلئے سماعت ملتوی کردی۔