اسلام آباد(آن لائن)سپریم کورٹ میں اسلام آباد میٹروبس سروس کے خلاف مشاہد حسین کی درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار اور ایک درخواست گزار شاکراللہ کے درمیان تلخ کلامی ہوئی ہے، درخواست گزار نے چیف جسٹس پر بطور سیکرٹری قانون ان سے رشوت طلب کرنے کا الزام عائد کردیا،جمعرات کے روز اسلام آباد میٹرو بس سروس سے متعلق مشاہد حسین سید کی درخواست پر لیے گئے ازخود نوٹس کی سماعت
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا مشاہد حسین سید صاحب موجود ہیں؟۔مشاہد حسین سید عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ میں نے 4 سال قبل جسٹس تصدق جیلانی کو خط لکھا، چیف جسٹس نے کہا کہ اگر 4 سال قبل لکھا تھا تب بھی آپ دلائل دیں۔ مشاہد حسین نے کہا کہ میرا مسئلہ ماحولیات سے متعلق تھا، میں نے سی ڈی اے کے ماسٹر پلان پر سوالات اٹھائے تھے، مشاہد حسین سید نے کہا کہ اب چونکہ میٹرو بس بن چکی ہے لہذا اس کیس کو نمٹانا ہی بہتر ہے، جس کے بعد چیف جسٹس نے ازخود نوٹس نمٹا دیا۔ازخود نوٹس نمٹانے پر ایک اور درخواست گزار شاکراللہ روسٹرم پر آیا اور کہا کہ سپریم کورٹ کے ایک جج ہائیکورٹ کے حکم پر عمل نہیں ہونے دے رہے، شاکر اللہ نے کہا کہ وہ جج اور کوئی نہیں بلکہ چیف جسٹس صاحب آپ خود ہیں، درخواست گزار نے کہا کہ 9 ماہ سے آپ فیصلہ نہیں ہونے دے رہے، چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ آپ وہی ہیں جن کی درخواست میں نے بطور سیکرٹری قانون منظور نہیں کی اور آپ کے خلاف فیصلہ دیا، شاکراللہ نے جواب میں کہا کہ آپ نے مجھ سے رشوت مانگی مگر میں نے آپ کو رشوت نہیں دی، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے بارے میں جسٹس عظمت سعید نے کہا ہے آپ کے دماغی توازن کا معائنہ ہونا چاہیے، شاکراللہ نے جواب دیا کہ چلیں ہم دونوں چل کر معائنہ کراتے ہیں، آپ میڈیکل بورڈ بنائیں اس میں ہم دونوں پیش ہوں گے، جس پر عدالتی عملے نے درخواست گزار کو کمرہ عدالت سے باہر نکال دیا۔