اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) سینئر صحافی کامران شاہد نے ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں کہا ہے کہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے فاروق بندیال کو پارٹی سے نکال دیا ہے، کامران شاہد نے کہا کہ سوشل میڈیا پر صارفین کی جانب سے شکایات کی بدولت عمران خان نے یہ ایکشن لیا۔ واضح رہے کہ خوشاب سے سیاسی رہنما فاروق بندیال کی تحریک انصاف میں شمولیت کی وجہ سے سوشل میڈیا نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا،
جس پر تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے نعیم الحق کی سربراہی میں کمیٹی بنا دی اور بعد ازاں فوری ایکشن لیتے ہوئے فاروق بندیال کو تحریک انصاف سے نکال دیا۔ مشہور فلم سٹار شبنم کا ان کے بیٹے اور خاوند روبن گھوش کو سامنے باندھ کر گینگ ریپ کرنے والے بااثر سیاسی رہنما کی پارٹی میں شمولیت پر تحریک انصاف کا باضابطہ ردعمل سامنے آ گیا ہے، تحریک انصاف کے ترجمان فواد چوہدری نے کہا کہ سزا یافتہ مجرم کا تحریک انصاف کا حصہ بننے کی اطلاعات پر نوٹس لے لیا گیا ہے، انہوں نے کہا کہ تین دن میں حقائق عمران کے سامنے رکھے جائیں گے، اخلاقی معیار پر کسی صورت سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ واضح رہے کہ اس سلسلے میں فاروق بندیال نے ایک نجی ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے زیادتی کے الزام کی تردید کی کہا کہ یہ باتیں انکے ماضی کا حصہ تھیں، ان باتوں میں کوئی صداقت نہیں، شبنم زندہ ہیں، ان سے پوچھا جا سکتاہے، ان کا مزید کہنا تھا کہ ڈکیتی کے کیس میں ملوث تھے، کالج کے زمانے میں لڑکوں سے چھوٹی موٹی غلطی ہوجاتی ہے ٗفاروق بندیال کا کہنا تھا کہ مخالفین کو اپنی ہار نظر آ رہی ہے، انکے نظریات پی ٹی آئی سے ملتے ہیں، ٹکٹ نہیں ملے گی تو آزاد الیکشن لڑینگے۔واضح رہے کہ ضیاالحق کے دور میں پاکستان کی مشہور فلمسٹار شبنم کے گھر ڈکیتی کی واردات ہوئی تھی جس میں ڈاکوؤں نے مشہور فلم سٹار شبنم کے ساتھ ان کے بیٹے اور خاوند روبن گھوش کو سامنے باندھ کر گینگ ریپ کیا تھا، اس واقعے میں فاروق بندیال اور ان کے دیگر دوست ملوث تھے،
فاروق بندیال نے اپنے دیگر دوستوں کے ساتھ مل کر مختلف پاکستانی اداکاراؤں کے ساتھ گینگ ریپ کی وارداتیں کی تھیں جن میں اداکارہ زمرد اور شبنم کا نام نمایاں ہے۔ جس وقت اداکارہ شبنم کے ساتھ یہ افسوسناک واقعہ پیش آیا ان کا بیٹا روفی پاکستان آیا ہوا تھا، واضح رہے کہ ان کا بیٹا لندن میں زیرتعلیم تھا۔ ان لوگوں نے شبنم کے خاوند موسیقار روبن گھوش، بیٹے روفی اور شبنم کے سیکرٹری خالد کو کرسیوں کے ساتھ باندھ کر ان کے سامنے شبنم کی آبروریزی کی تھی،
اس افسوسناک عمل کے بعد وہ لوگ اداکارہ شبنم کے گھر سے مال و دولت لوٹ کر فرار ہو گئے تھے۔ چند دنوں بعد ان افراد نے بازار حسن میں چندا نامی طوائف کے کوٹھے پر مجرہ دیکھتے ہوئے طلائی زیورات نچھاور کیے یہ زیورات انہوں نے اداکارہ زمرد کے گھر سے چرائے تھے۔ بعدازاں چندا نامی طوائف یہ زیورات فروخت کرنے نیلا گنبد کے قریب اسی سنار کی دکان پر چلی گئی جہاں سے اداکارہ زمرد نے یہ زیورات خریدے تھے، یوں چندہ کی نشاندہی پر محترم فاروق بندیال ساتھیوں سمیت پکڑے گئے،
ملٹری کورٹ میں ٹرائل ہوا اور ان تمام افرادکو سزائے موت سنا دی گئی۔ بعد ازاں فاروق بندیال کے والد نے ایک عرب ملک کے حکمران کے ذریعے فاروق بندیال کی کوششیں کیں جس کے بعدکہا جاتا ہے کہ مجرموں کے ’’وارثان‘‘ نے اداکارہ شبنم کے اکلوتے بیٹے روفی کو اغوا کرکے اسے جان سے مارنے کی دھمکی دی اور یوں ایک بدقسمت ماں کو بلیک میل کرتے ہوئے اداکارہ شبنم سے مجرموں کے حق میں معافی نامہ لکھوایا گیا اور گینگ ریپ کے ان مجرموں کو جن پر جرم ثابت ہو چکا تھا
اور مجرم اپنے اس گھناؤنے اور قبیح فعل کو خود تسلیم کر چکے تھے معافی دے دی گئی۔ اب بندیال ٹرانسپورٹ کمپنی کے مالک فاروق بندیال تحریک انصاف میں شامل ہو گئے ہیں اور آئندہ عام انتخابات میں تحریک انصاف کی ٹکٹ پر خوشاب سے قومی اسمبلی کی نشست پر انتخاب لڑیں گے، فاروق بندیال کی تحریک انصاف میں شمولیت کے بعد سوشل میڈیا پر شدید ردعمل دیکھنے میں آ رہا ہے اور اس کی شدید مخالفت کی جا رہی ہے، فاروق بندیال کے ماضی کے حوالے سے عمران خان کتنا جانتے تھے یہ تو معلوم نہیں
لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ سب سامنے آنے کے بعد عمران خان فاروق بندیال کی تحریک انصاف میں شمولیت کے فیصلے پر قائم رہتے ہیں یا نہیں؟ واضح رہے کہ پیپلزپارٹی میں عرفان اللہ مروت کی شمولیت پر آصفہ نے اپنے والد آصف علی زرداری کے فیصلے کے خلاف احتجاج کیا تھا اور پھر وہ شمولیت رک گئی کیونکہ عرفان اللہ مروت پر وینا حیات کے ریپ کا الزام تھا، واضح رہے کہ اداکارہ شبنم کے گھر پر ڈکیتی کی یہ واردات 13۔12مئی 1978ء کی درمیانی شب لاہور میں ہوئی جہاں چند مسلح نوجوانوں نے شبنم کے بیٹے روفی کو یرغمال بنا کر روبن گھوش کے سامنے ریپ کیا۔
واردات کی تفتیش کے دوران انکشاف ہوا کہ اداکارہ زمرد کے گھر پر بھی ایسا ہی کیس ہوا تھا۔ پولیس نے شبنم کے معاملے کو اٹھانے پر ملزمان کو گرفتار کیا۔ ملزمان میں فاروق بندیال، وسیم یعقوب بٹ، طاہر تنویر بھنڈر جمیل احمد چٹھہ اور جمشید اکبر ساہی شامل تھے۔ جنہیں فوجی عدالت نے سزائے موت سنا دی تھی۔ اس فیصلے کے بعد ملزمان کے لواحقین نے شبنم پر بھرپور دباؤ ڈالا، با اثر شخصیات کے ذریعے خبر دبا لی گئی، پولیس پر دباؤ ڈال کر ریپ کی بجائے ڈکیتی کا پرچہ کاٹا گیا۔ جب ضیاء الحق کو تمام تفصیلات کا علم ہوا تو انہوں نے اس کیس میں ذاتی اثر و رسوخ استعمال کیا اور حکم دیا کہ ریپ کیس ملزمان پر حدود آرڈیننس کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا جائے۔
آخر ملزمان گرفتار کیے گئے، سپیشل عدالت میں مقدمے کی سماعت ہوئی، حدود آرڈیننس کے تحت ہی ملزمان کو سزائے موت دی گئی، بندیال فیملی ججز، چیف سیکرٹری اور دیگر اسٹیبلشمنٹ کا پریشر بہت زیادہ ہوا تو ضیاء الحق نے بھی گھٹنے ٹیک دیے۔ اداکارہ شبنم کا گھرانہ اس وقت سخت ترین اذیت سے گزر رہا تھا، انہوں نے اپنے بیٹے کو امریکہ بھیج دیا۔ اب وہ صرف مجرموں کو سزا دلوانا چاہتی تھیں۔ چند بڑے بڑے لوگ شبنم کے گھر پہنچ گئے۔ صلح کے لیے منت سماجت بھی کی گئی اور دباؤ بھی ڈالا گیا جس پر شبنم کوانہیں معاف کر نا پڑا۔ شبنم کے وکیل ایس ایم ظفر نے صدر مملکت سے اپیل کی تھی۔ شبنم اور رابن گھوش سے معافی نامے پر دستخط کروائے گئے اور سزائے موت کو معمولی سزا دس سال قید میں بدل دیا گیا۔