ٓلاہور (ا ین این آئی) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے اصغر خان کیس پر کابینہ کا اجلاس نہ بلانے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے ہیں کہ یہ اتنا سنجیدہ مسئلہ ہے اور حکومت کو کوئی فکر نہیں جبکہ سپریم کورٹ نے بغیر استحقاق رکھی گئی گاڑیاں وزراء اور محکموں سے فوری واپس لینے کا حکم دیتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ عوام ٹیکس کا پیسہ وزیروں کی عیاشیوں کے لیے نہیں دیتے ،
جسے بلٹ پروف گاڑی کی ضرورت ہے اپنی جیب سے خرید لے۔گزشتہ روز چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں بینچ نے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں اصغر خان فیصلے پر عملدرآمد کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران ڈی جی فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) بشیر میمن سپریم کورٹ میں پیش ہوئے اور بتایا کہ اس حوالے سے انکوائری جاری ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کابینہ نے اصغر خان کیس سے متعلق اب تک کوئی فیصلہ کیوں نہیں کیا؟۔جس پر وفاقی حکومت کے وکیل نے عدالت عظمیٰ سے استدعا کی کہ کابینہ کا اجلاس بلانے کے لیے مہلت دی جائے۔جس پر چیف جسٹس پاکستان نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کابینہ نے اب تک اصغر خان کیس سے متعلق کوئی فیصلہ کیوں نہیں کیا، یہ اتنا سنجیدہ مسئلہ ہے اور حکومت کو کوئی فکر ہی نہیں۔وفاقی حکومت کے وکیل نے آگاہ کیا کہ آج (جمعرات) شام وفاقی کابینہ کا اجلاس ہو رہا ہے ۔جس پر چیف جسٹس پاکستان نے ہدایت کی کہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں اس معاملے کا فیصلہ کیا جائے اور عدالت کو کابینہ کے فیصلہ سے متعلق ہر صورت آج (جمعرات ) ہی آگاہ کیا جائے۔ واضح رہے کہ 7مئی کو سپریم کورٹ نے اصغر خان عملدرآمد کیس میں سابق آرمی چیف اسلم بیگ
اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی اسد درانی کی نظر ثانی درخواستیں مسترد کردیں تھیں۔ 8 مئی کو چیف جسٹس نے حکم دیا تھا کہ حکومت 1990ء کے انتخابات میں دھاندلی کے ذمہ دار سابق فوجی افسران کے خلاف ایک ہفتہ میں کارروائی کا فیصلہ کرے اور یہ فیصلہ کابینہ اجلاس میں کیا جائے تاہم حکومت نے تاحال کابینہ اجلاس میں اس حوالے سے فیصلہ نہیں کیا۔علاوہ ازیں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں بینچ نے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری
میں بغیر استحقاق رکھی جانے والی گاڑیوں کے خلاف ازخود نوٹس کیس کی سماعت بھی کی۔ سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل نیئر عباس نے وفاقی کابینہ اور محکموں کے پاس موجود گاڑیوں کی تفصیلات پیش کیں۔رپورٹ کے مطابق مجموعی طور پر 105 گاڑیاں وفاقی حکومت اور کابینہ کے زیر استعمال ہیں۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ کوئی بھی افسر یا وزیر 1800 سی سی سے اوپر گاڑی رکھنے کا اختیار نہیں رکھتا۔
اس موقع پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ وزیراعظم نے کس اختیار کے تحت گاڑیاں خریدنے کی ہدایت کی؟ عوام اپنے ٹیکس کا پیسہ وزراء کی عیاشی کے لیے نہیں دیتے ۔سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے بغیر استحقاق رکھی گئی ساری گاڑیاں آج (جمعرات )رات 12 بجے تک وزراء اور محکموں سے واپس لینے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ خلافِ قانون گاڑیاں خریدنے والے بورڈ آف ڈائریکٹرز سے پیسے وصول کیے جائیں گے۔سپریم کورٹ نے حکم دیا
کہ جانے والے وزیراعلی پنجاب شہباز شریف سے اضافی 2 گاڑیاں واپس لی جائیں جبکہ کابینہ تحلیل ہوتے ہی صوبائی وزیر قانون رانا ثنا اللہ اور دیگر سے بھی بلٹ پروف گاڑیاں واپس لی جائیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ انتخابات میں بلٹ پروف گاڑیاں چلانے کی اجازت نہیں دیں گے، اگر کسی کو بلٹ پروف گاڑی کی ضرورت ہے تو اپنی جیب سے خرید لے۔سپریم کورٹ کا مزید کہنا تھا کہ بغیر استحقاق گاڑیاں رکھنے کا معاملہ قومی احتساب بیورو (نیب) کو بھی بھیجا جا سکتا ہے۔