اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)نقیب اللہ قتل کیس، سپریم کورٹ نے 5رکنی جے آئی ٹی تشکیل دیدی، محسود قبیلے کے عمائدین اور مقتول نقیب اللہ محسود کے والد محمد خان محسود کو رائو انوار کے خلاف کوئی بھی ماورائے قانون قدم نہ اٹھانے کا حکم۔ تفصیلات کے مطابق نقیب اللہ قتل کیس میں بڑی پیشرفت سامنے آئی ہے اور مرکزی ملزم سابق ایس ایس پی رائو انوار سپریم کورٹ میں پیش ہو گئے ہیں۔
سپریم کورٹ میں نقیب اللہ قتل کیس میں اہم پیش رفت سامنے آئی ہے اور کیس کے مرکزی ملزم سابق ایس ایس پی رائو انوار کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ رائو انوار آج انتہائی ڈرامائی انداز میں سپریم کورٹ میں پیش ہوئے۔ وہ سفید گاڑی میں منہ پر ماسک لگائے سپریم کورٹ آئے، ان کی گاڑی کو سپریم کورٹ کے اندر داخل ہونے والے دروازے تک خصوصی طور پر لایا گیا۔ واضح رہے کہ چیف جسٹس نے نقیب اللہ قتل کیس کا ازخود نوٹس لے رکھا ہے۔ سماعت کے دوران رائو انوار کے وکیل کا کہنا تھا کہ میرے موکل نے عدالت کے سامنے سرنڈر کر دیا ۔چیف جسٹس نے رائو انوار سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ہم نے آپ پر اعتماد کیا آپ نے اس وقت سرنڈر کیوں نہیں کیا، آپ بڑے دلیر تھے، کہاں تھے اتنے دن، عدالت نےا ٓپ کو وقت دیا،ہم کمیٹی بنا رہے ہیں جو کچھ کہنا ہے کمیٹی میں کہنا،آپ عدالتوںکو خط لکھ رہے تھے،جو خط لکھے گئے ان کا تاثر درست نہیں، آپ نے عدالت پر اعتبار کیوں نہیں کیا؟آپ کو موقع دیا اب جے آئی ٹی بنا رہے ہیں۔چیف جسٹس نے رائو انوار کو گرفتار کرنے کا حکم دیتے ہوئے حفاظتی ضمانت منسوخ کر دی۔ چیف جسٹس نے حکم دیا کہ رائو انوار کی حفاظت یقینی بنائی جائے۔ واضح رہے کہ نقیب اللہ محسود قتل کیس میں مطلوب سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار عدالت میں پیش ہوگئے۔عدالت میں پیشی کے موقع پر انسداد دہشت گردی اسکواڈ کے اہلکار بھی راؤ انوار کے ساتھ تھے۔
سفید رنگ کی گاڑی راؤ انوار کو سپریم کورٹ کے مرکزی دروازے تک لائی۔ راؤ انوار چہرے پر ماسک لگا کر عدالت پہنچے۔ نقیب اللہ قتل کیس میں اہم پیشرفت سامنے آئی ہے اور مرکزی ملزم سابق ایس ایس پی ملیر رائو انوار سپریم کورٹ میں پیش ہو گئے ہیں۔ رائو انوار سفید رنگ کی گاڑی میں سپریم کورٹ پہنچے ، ان کی گاڑی کو سپریم کورٹ کے اندرونی داخلی دروازے تک آنے کی خصوصی اجازت دی گئی تھی۔
رائو انوار نے چہرے پر ماسک پہن رکھا تھا جبکہ جیسے ہی وہ وہ گاڑی سے باہر نکلے ، اسلام آباد پولیس کے خصوصی دستے نے داخلی دروازے کو چاروں طرف سے گھیرے میں لے کر حصار قائم کر لیا جبکہ رائو انوار کے عین عقب میں اینٹی ٹیررسٹ سکواڈ کے خصوصی اہلکار بھی حفاظت کیلئے ان کے ساتھ موجود تھے۔ ذرائع کے مطابق رائو انوار کافی دنوں سے اسلام آباد میں ہی موجود تھے ،
اور اس سے قبل چیف جسٹس کے نام جو خط رائو انوار کی طرف سے بھیجا گیا تھا وہ بھی اسلام آباد سے ہی سپریم کورٹ بھیجا گیا تھا۔واضح رہے کہ 13 جنوری کو ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی سربراہی میں خطرناک ملزمان کی گرفتاری کے لیے شاہ لطیف ٹاؤن میں چھاپے کے لیے جانے والی پولیس پارٹی پر دہشت گردوں کی جانب سے فائرنگ کا دعویٰ کیا گیا تھا۔پولیس نے جوابی فائرنگ کرتے
ہوئے 4 دہشت گردوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ ہلاک ہونے والوں میں نوجوان نقیب اللہ بھی شامل تھا۔چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے معاملے کا ازخود نوٹس لے کر راؤ انوار کو عدالت طلب کیا تھا تاہم راؤ انوار طویل عرصے سے روپوش تھے۔انہوں نے 2 بار چیف جسٹس کو خط بھی لکھا تھا جس پر عدالت نے انہیں حفاظتی ضمانت بھی دی تھی۔بعد ازاں نقیب اللہ محسود قتل از خود نوٹس
کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے حفاظتی ضمانت کے باوجود پیش نہ ہونے پر راؤ انوار کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہوئے بینک اکاؤنٹس منجمد کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔خیال رہے کہ آج سپریم کورٹ میں نقیب اللہ قتل ازخود نوٹس کیس کی سماعت ہو گی جبکہ آج ہی رائو انوار کے خلاف توہین عدالت کیس کی بھی سماعت کی جائے گی۔ عدالت نے چاروں صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز
سمیت ڈپٹی اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کر رکھے ہیں۔چیف جسٹس آف پاکستان نے 5رکنی جے آئی ٹی تشکیل دیدی، یہ جے آئی ٹی آفتاب پٹھان کی سربراہی میں کیس کی تحقیقات کر کے رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کرے گی ۔ چیف جسٹس نے محسود قبیلے کے عمائدین اور مقتول نقیب اللہ محسود کے والد محمد خان محسود کو رائو انوار کے خلاف کوئی بھی ماورائے قانون قدم نہ اٹھانے کا حکم دیا ہے
جبکہ رائو انوار کے نجمدبینک اکائونٹس بحال کرنے کا حکم دیا ہے۔چیف جسٹس نے سندھ پولیس کوملزم رائو انوار کو حفاظت یقینی بنانے کی ہدایت، جے آئی ٹی کی رپورٹ میں الزام ثابت ہونے پر کیس چلایا جائے گا جبکہ ثابت نہ ہونے پر بری کر دیا جائے گا۔