لندن (این این آئی)دنیا کی کم عمر ترین نوبل انعام یافتہ سماجی کارکن ملالہ یوسف زئی نے کہا ہے کہ انہوں نے خود پر حملہ کرنے والے لوگوں کو معاف کردیاکیونکہ معاف کرنا ہے کہ سب سے بہترین انتقام ہے۔دنیا بھر میں لڑکیوں کی تعلیم و خواتین کی خودمختاری کے حوالے سے خدمات سر انجام دینے والی پاکستانی نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی نے یہ بات انٹرنیٹ اسٹریمنگ سروس نیٹ فلیکس کے ایک شو میں کہی۔انٹرویوکے دور ان ملالہ یوسف زئی
نے نہ صرف خود پر ہونے والے حملے سے متعلق گفتگو کی، بلکہ آکسفورڈ میں اپنی تعلیم، برطانیہ سے اپنے آبائی علاقے منگورہ واپسی، عالمی سیاسی صورتحال، ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مسلمان ممالک کے شہریوں پر امریکا میں داخلے کی پابندی اور لڑکیوں میں تعلیم سمیت دیگر عالمی مسائل پر بھی بات کی۔ملالہ یوسف زئی نے ڈیوڈ لیٹرمین کی جانب سے خود پر ہونے والے حملے کے حوالے سے کہا کہ انہیں ہر طرح سے تمام چیزیں ٹھیک طرح یاد نہیں کہ اس دن کیسے اور کیا ہوا تھا؟۔ملالہ یوسف زئی نے خود پر ہونے والے حملے کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ اس دن جب انہیں ہوش آیا اور ان کی آنکھیں کھلیں تو انہوں نے خود کو ایک مختلف ملک میں پایا، جہاں ان کے آس پاس انگریزی زبان بولنے والے ڈاکٹرز اور نرسز موجود تھیں۔انہوں نے کہاکہا انہوں نے صرف اتنا پوچھا کہ ان کے ساتھ کیا ہوا اور وہ یہ جان کر حیران رہ گئیں کہ وہ اسکول کی بس میں اسکول کے دوستوں کے ساتھ تھیں، تاہم اب وہ ہسپتال میں ہے۔نوبل انعام یافتہ لڑکی نے کہا کہ ان کی پختون روایات کے بعد مطابق کسی کو معاف کرنا ہی بہترین انتقام ہے ٗ اوراس لیے انہوں نے خود پر حملہ کرنے والے افراد کو بھی معاف کردیا ہے۔ملالہ یوسف زئی نے انکشاف کیا کہ ان پر حملہ کرنے والا شخص نوجوان تھا ٗ
انہوں نے واقعے کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ حملہ آور تقریبا ان کا ہم عمر تھا۔انہوں نے بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ان پر حملہ کرنے والے لڑکے نے سوچا کہ وہ صحیح کام کر رہا اور ایک برے کام کرنے والے شخص کو نشانہ بنا رہا ہے۔تعلیم کیلئے کوشاں رہنے والی ملالہ یوسف زئی نے کہا کہ ان پر حملہ کرنے والے لوگ بھی ان جیسے ہی ہیں اور انہیں سمجھانے اور ان پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ملالہ یوسف زئی نے امید ظاہر کی
کہ ان کے ساتھ ہونے والے واقعے کے بعد لوگ نہ صرف انتہاپسندی اور انتہاپسند لوگوں بلکہ ایسی ذہینت کے خلاف بھی اٹھ کھڑے ہوں گے۔20 سالہ پاکستانی نڑاد سماجی کارکن نے تعلیم کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ عالمی رہنما تعلیم کی اہمیت کو نظر انداز کرنا چھوڑ دیں، عالمی رہنما انتہاپسندی، عسکریت پسندی اور غربت پر تو بات کرتے ہیں، مگر وہ تعلیم پر بات نہیں کرتے۔انہوں نے دلیل دی کہ بہتر تعلیم سے ہی ممالک سے غربت ختم ہوگی اور وہاں ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی۔