قصور(مانیٹرنگ ڈیسک) زینب کے قاتل عمران کی گرفتاری نے قصور پولیس کے مبینہ مقابلوں کے پول کھول دےئے ، پولیس نے 25فروری2017کو ایمان فاطمہ کے قاتل مدثر کو مقابلہ میں ہلاک کر دیا تھا مگر زینب کے ملزم عمران کے انکشاف نے مدثر کو بے گناہ ثابت کر دیا، مدثر کے ورثاء نے اس وقت کے ڈی پی او قصور، ڈی ایس پی ، ایس ایچ او صدر قصورکے خلاف عدالت میں رٹ دائر کردی ہے ۔
پولیس مقابلہ میں ہلاک ہونے والے مدثر کی والدہ جمیلہ بی بی زوجہ منیر احمد نے ایڈیشنل ڈسٹر کٹ اینڈ سیشن جج قصور ظفر اقبال کی عدالت میں رٹ دائر کی ہے کہ پیروالا روڈ میں 24فروری21017کوطواسین نامی شخص کی پانچ سالہ بیٹی امان فاطمہ کو کسی نا معلوم ملزم نے اغوا کیا اور زیادتی کے بعد اسے قتل کر کے اسکی نعش کو ایک زیر تعمیر مکان میں پھینک دیا اور اگلے دن ہی پولیس نے میرے بیٹے مدثر کو ایک جھوٹے مقابلے میں ہلاک کر دیا اورمقدمہ میرے دوسرے بیٹے عدنان اورعاشق نامہ شخص کے خلاف درج کر دیا جسے ہم جانتے بھی نہیں اور ہمیں جش کرانے کے لئے پولیس نے مدثر اور اسکے کزنوں کو غیر قانونی طور پر اپنی حراست میں رکھا اورجان سے مارنے کی دھمکیاں دیں اور جب ہم نے یقین دہانی کروائی کہ ہم پولیس کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کریں گے تو پولیس نے ہم سے اپنی مرضی کے کاغذات پر دستخط کروا کرہمیں چھوڑ دیا ،جمیلہ بی بی نے عدالت سے درخواست کی ہے کہ ڈی پی او قصور سید علی ناصر رضوی ، ڈی ایس پی صدر سرکل قصورمرزا عارف رشید اور ایس ایچ او قصور محمد یونس کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا جائے ، عدالت نے30جنوری کو الزام علیہ کو عدالت میں طلب کر لیا ہے ۔ پولیس نے 25فروری2017کو ایمان فاطمہ کے قاتل مدثر کو مقابلہ میں ہلاک کر دیا تھا مگر زینب کے ملزم عمران کے انکشاف نے مدثر کو بے گناہ ثابت کر دیا، مدثر کے ورثاء نے اس وقت کے ڈی پی او قصور، ڈی ایس پی ، ایس ایچ او صدر قصورکے خلاف عدالت میں رٹ دائر کردی ہے ۔