غزہ/مناما(مانیٹرنگ ڈیسک) امریکا کی جانب سے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے اور اپنا سفارت خانہ منتقل کرنے کے اعلان کے بعد مقبوضہ فلسطین میں صورت حال مزید بگڑ گئی، گزشتہ چار روز سے غزہ اور مغربی کنارے میں اسرائیل کے خلاف احتجاج کا سلسلہ مزید تیز ہوگیا جبکہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کی فضائی بمباری سے 2 بچوں سمیت 4 افراد شہید اور 300سے زائد زخمی ہوگئے جبکہ گزشتہ دو دن کے دوران جام شہادت نوش کرنے
والے فلسطینیوں کی تعداد 6 ہوگئی ،ادھر فلسطینی صدر کے مشیر ماجدی الخالدی نے کہا ہے کہ امریکی نائب صدر مائیک پینس کے بیت اللحم کے دورے پر ان سے محمود عباس ملاقات نہیں کریں گے،دوسری جانب سعودی عرب کے خفیہ ادارے کے ایک سابق سربراہ نے امریکی صدر کی جانب سے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے اعلان کے بعد تنبیہ کی ہے کہ یہ فیصلہ’انتہا پسند گروہوں کے لیے آکسیجن’ کا کردار ادا کرے گا جس کے بعد ‘انھیں سنبھالنے میں دشواری ہو سکتی ہے۔ غیر ملکی میڈیاکے مطابق امریکا کی جانب سے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے اور اپنا سفارت خانہ منتقل کرنے کے اعلان کے بعد مقبوضہ فلسطین میں صورت حال مزید بگڑ گئی ہے، گزشتہ چار روز سے غزہ اور مغربی کنارے میں اسرائیل کے خلاف احتجاج کا سلسلہ مزید تیز ہوگیا ہے۔ اسرائیل نے فلسطینی علاقوں سے راکٹ داغنے کا الزام لگا کر بے گناہ فلسطینیوں پر بمباری کردی ہے۔ گزشتہ روز مغربی کنارے میں بیت اللحم، رملہ اور الخلیل سمیت مختلف شہروں میں ہزاروں فلسطینیوں نے احتجاج کیا، اسرائیلی پولیس نے نہتے فلسطینیوں پر آنسوں گیس کی شیلنگ،لاٹھی چارج اور ربڑ کی گولیاں برسانے کے علاوہ براہ راست فائرنگ بھی کی، جس کے نتیجے میں 2 فلسطینی شہید جب کہ 300 سے زائد زخمی ہوئے، اس کے علاوہ درجنوں فلسطینیوں کو گرفتار بھی کرلیا گیا ہے۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق اسرائیلی فوج نے الزام عائد کیا کہ نئی مزاحمتی تحریک کے اعلان کے بعد حماس نے غزہ سے تین راکٹ داغے جو اسرائیل کے علاقوں میں گرے، جس کے جواب میں اسرائیلی فوج نے کارروائی کرتے ہوئے غزہ کے مختلف علاقوں میں فضائی حملے کئے، حملوں میں ہتھیار تیار کرنے والے ایک مرکز اور اسلحے کے گودام کو نشانہ بنایا گیا حملوں میں جنگی طیاروں اور ٹینکوں کا بھی استعمال کیا گیا۔ فلسطینی وزارت صحت کے مطابق غزہ میں اسرائیلی فضائی حملوں میں دو بچوں سمیت 4 افراد شہید جبکہ 8 زخمی بھی ہوئے ہیں۔
واضح رہے کہ امریکہ دنیا کا پہلا ملک ہے جس نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا ہے۔ اس فیصلے پر امریکا کو عالمی سطح پر شدید مذمت کا سامنا ہے جبکہ دنیا کے مختلف ممالک میں اسرائیل، امریکہ مخالف اور فلسطین کے حق میں احتجاجی مظاہرے بھی جاری ہیں۔دوسری جانب فلسطینی صدر کے مشیر ماجدی الخالدی نے کہا ہے کہ امریکی نائب صدر مائیک پینس کے بیت اللحم کے دورے پر ان سے محمود عباس ملاقات نہیں کریں گے۔ گزشتہ روز بھی فلسطینی اتھارٹی کے ترجمان نے بھی ایسا ہی بیان دیا تھا۔
اتھارٹی کے ترجمان جبریل رجب نے کہا تھا کہ امریکی نائب صدر مائیک پینس کے ساتھ ان کے دورے کے دوران اعلی سطحی ملاقات نہیں کی جائے گی۔ رجب نے دیگر عرب ملکوں سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ اِس مجوزہ دورے کے دوران ان سے ملنے سے گریز کریں۔ امریکی نائب صدر رواں ماہ کے آخر میں اسی خطے کے دورے پر ہوں گے۔دوسری جانب سعودی عرب کے خفیہ ادارے کے ایک سابق سربراہ نے امریکی صدر کی جانب سے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے اعلان کے بعد تنبیہ کی ہے کہ یہ فیصلہ’انتہا پسند گروہوں کے لیے آکسیجن’ کا کردار ادا کرے گا
جس کے بعد ‘انھیں سنبھالنے میں دشواری ہو سکتی ہے۔بحرین میں ایک سکیورٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سعودی خفیہ ادارے کی 24 سال تک سربراہی کرنے والے شہزادہ ترکی الفیصل نے یہ بیان دیا ہے۔کانفرنس میں موجود بی بی سی کے نمائندے کے مطابق مشرق وسطی کے خطے میں وسیع پیمانے پر خدشات ہیں کہ امریکی اعلان کے بعد ایران کے علاوہ شدت پسند گروہ دولتِ اسامیہ اور القاعدہ اس سے فائدہ اٹھائیں گے۔واضح رہے کہ امریکی سفیر برائے اقوام متحدہ نکی ہیلی کو اس تقریب سے خطاب کرنا تھا لیکن انھوں نے اس میں شرکت نہیں کی۔