ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

مشرف کو کس نے باہر بھیجا؟نوازشریف کیخلاف سازش کس نے کی؟پرویز رشیدکے دھماکہ خیزانکشافات،نیا تنازعہ کھڑا ہوگیا

datetime 18  اگست‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

لاہور( این این آئی) سابق وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید نے کہا ہے کہ بہت سی سچائیاں اپنے وقت کے ساتھ ثابت ہو جاتی ہیں ،جمہوریت ابھی نا تواں ہے یہ کبھی لڑکھڑاتی ہے اوردھکے کھا جاتی ہے اس کو بچانے کیلئے میری ذات کی قربانی دینی پڑی ہے تومیں نے خوشی سے دی ہے ،پرویز مشرف کی بد روح سیاستدانوں اور کہیں نہ کہیں اداروں کے افراد میں بھی موجود ہے اس کو تبدیل بھی کرنا ہوگا راستہ بھی روکنا ہوگا اور اس کا مقابلہ بھی کرنا ہوگا،

پرویزمشرف کو ہم نے باہر نہیں بھیجا لیکن روک بھی نہیں سکے۔ نجی ٹی وی کو انٹر ویو میں پرویز رشید نے کہا کہ اس سے پہلے جب وزرائے اعظم نکالے جاتے تھے اور اپنے گھروں کو جاتے تھے تو لوگوں کو دو چار ماہ ان کانام بھی یاد نہیں آتا تھا لیکن اس مرتبہ لوگوں کا فوری رد عمل آیا ہے۔میرے خیال میں پاکستان میں ایک روح ہے جو پھرتی رہتی ہے بلکہ بد روح ہے جسے میں مشرف کا نام دیتا ہوں ۔ یہ بد روح سیاسی جماعتوں ،سیاسی ذہنوں میں بھی موجود ہے کہیں نہ کہیں دوسرے اداروں میں بھی موجود ہے ، میں اداروں کا نام نہیں لیتا یہ افراد ہیں۔ اس سوچ کے نتیجے میں سب کچھ ہوتا ہے ۔ تحریک انصاف نے جو کچھ کیا وہ مہرے کا کردار ہے کیا وہ اس سوچ کے مہرے نہیں ،اس سوچ کو تبدیل بھی کرنا پڑے گا اس کا راستہ بھی روکنا ہوگا اور اس کا مقابلہ بھی کرنا ہوگا۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’’وہ ‘‘خود اپنی زبان سے کہہ چکے ہیں انہیں بھیجنے میں کسی اور نے مدد کی تھی ،بھیجنے میں ہمارا کوئی کردار نہیں ہے ہم روک نہیں سکے اس لئے کہ روکنے کا کام ہم اکیلے نہیں کر سکتے تھے اس کے لئے پوری ریاست کے تمام اداروں کی مدد چاہیے تھی جو ہمیں میسر نہیں ہو سکی بہت سے اداروں کا مل کر کام ہوتا ہے۔ انہوں نے اس سوال کہ وزیر داخلہ آپ کا تھا کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ وزیر داخلہ ہوتے ہوئے بھی ہمارے خلاف فیصلے ہوئے ہیں،

جے آئی ٹی بنی ہوئی ہے ،وٹس ایپ بھی ہوئے بلکہ بہت کچھ ہو جاتا ہے ۔وزیر داخلہ ہوتے ہوئے بھی ہمارے خلاف فیصلے ہوئے ہیں،جے آئی ٹی بنی ہوئی ہے ،وٹس ایپ بھی ہوئے بلکہ بہت کچھ ہو جاتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ وہ اپنا سورس بیشک ظاہر نہ کرتے لیکن جو ان کا سورس نہیں تھے اور انہیں سزا دی جارہی تھی کم سے کم یہ کہتے یہ ہمارے سورس نہیں تھے ۔انہوں نے کہا کہ میں ایک سیاسی کارکن ہوں اور سیاسی کارکن کے طور پر اپنا کردر پہلے بھی کردار ادا کرتا تھا اور اب بھی ادا کر رہا ہوں۔ بہت سی سچائیاں اپنے وقت کے ساتھ ثابت ہو جاتی ہیں اور جمہوریت جو کہ ابھی نا تواں ہے لڑکھڑاتی ہے دھکے کھا جاتی ہے اس کو بچانے کے لئے میری ذات کی قربانی دینی پڑی ہے تومیں نے خوشی سے دی اورمیرے وزیر اعظم اسی فلسفے پر یقین رکھتے ہیں اور صبر سے کام لیتے ہیں۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…