لاہور (سیاسی رپورٹر) روزنامہ خبریں کے مطابق معلوم ہوا ہے کہ اکتوبر کے پہلے ہفتے میں نوازشریف ایک بار پھر وزیراعظم ہاﺅس میں ہونگے اور آئینی اور قانونی طور پر اس کام کو یقینی بنانے کے لئے کلثوم نوازشریف کو لاہور کے حلقہ 120 سے الیکشن لڑوایا جا رہا ہے۔ پرویز مشرف کے 8 سال کو چھوڑ کر نوازشریف 35 سال سے حکومت میں رہے ہیں اور اس حلقے سے بار بار کامیاب ہوتے رہے ہیں لہٰذا کلثوم نوازشریف کی کامیابی ن لیگی حلقوں میں یقینی سمجھی جا رہی ہے۔ 17
ستمبر کو ضمنی الیکشن ہو جائیں گےاور مسلم لیگی حلقوں کے مطابق الیکشن کمیشن جلد ہی بیگم کلثوم نوازشریف کی کامیابی کا نوٹی فکیشن جاری کر دے گا اسی دوران سپیکر قومی اسمبلی کا اجلاس بلائے گا جہاں کلثوم نوازشریف ممبر قومی اسمبلی حلف اٹھائیں گی۔ شاہد خاقان عباسی اس فارمولے کے تحت استعفیٰ دیں گے اور وزیراعظم کا عہدہ خالی ہونے پر کلثوم نوازشریف کو پاکستان کی اگلی وزیراعظم منتخب کر لیا جائے گا۔ تخمینہ لگایا گیا ہے کہ یہ سارا عمل 30 ستمبر تک مکمل ہو سکتا ہے اور اکتوبر کے پہلے ہفتے میں کلثوم نوازشریف وزیراعظم بن سکتی ہیں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس عہدے پر آنے کے بعد وہ آئینی اور قانونی طور پر وزیراعظم ہاﺅس منتقل ہونے کی بجاز ہوں گی اور دنیا کا کوئی قانون وزیراعظم کے شوہر سابق وزیراعظم کے شوہر سابق وزیراعظم کو بیگم کے ساتھ وزیراعظم ہاﺅس میں رہائش احتیار کرنے سے نہیں روک سکتا واضح رہے کہ پڑوسی ملک بھارت میں ایسا ہی واقعہ ہو چکا ہے جب بہار کے وزیراعلیٰ لالو پرشاد کو نااہل کر دیا گیا تھا تو ان کی بیوی ربڑی دیوی جن کے خلاف کوئی الزامات نہیں تھے وزیراعلیٰ منتخب ہوئی تھیں اور بقایا مدت انہوں نے وزیراعلیٰ کے مکمل اختیارات استعمال کئے۔ سابق نااہل وزیراعلیٰ لالو پرشاد چونکہ وزیراعلیٰ کی سرکاری رہائش گاہ میں بیوی کے ساتھ رہتے تھے لہٰذا عملا وہی حکومت چلاتے تھے اور ہر ضروری فائل پر ربڑی دیوی ان کے مشورے کے بعد دستخط کرتی تھی۔
ربڑی دیوی تو پڑھی لکھی خاتون نہ تھیں لیکن کلثوم نوازشریف ایم اے ہیں بلکہ شادی کے بعد انہوں نے تحقیقی مقالہ لکھنے کے بعد پی ایچ ڈی بھی کر رکھی ہے اور اگر وہ چاہیں تو اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر کلثوم نوازشریف بھی لکھ سکتی ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ نوازشریف کی عملاً وزیراعظم ہاﺅس واپسی سے سیاسی مخالفین کے حوصلے پست ہو جائیں گے اور ان کے حامی فتح کا جشن منا سکیں گے۔ اسلام آباد میں یہ قیاس آرائیاں بھی عام ہیں کہ اس خیال کے پیش نظر شاہد خاقان عباسی نے منتخب وزیراعظم کا حلف اٹھانے کے باوجود وزیراعظم ہاﺅس میں رہائش اختیار نہیں کی اور یہ بیان دیا کہ وہ اپنے سابقہ گھر ہی میں رہیں گے
البتہ وہ وزیراعظم ہاﺅس کو دفتر کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ دوسری طرف یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اگرچہ سابق وزیراعظم نوازشریف نے یہ اعلان کر دیا تھا کہ شاہد خاقان عباسی ہی الیکشن تک وزیراعظم رہیں گے لیکن پارٹی کی صدارت اور وزارت عظمیٰ کو جاندار بنانے کے لئے نوازشریف صاحب کے جاں نثاروں کا اصرار ہے کہ بیگم کلثوم نوازشریف کے دڑیعے سابق وزیراعظم کو اکتوبر کے پہلے ہفتے میں دوبارہ وزیراعظم ہاﺅس میں بھیجا جائے تا کہ وہ عملاً وہ اپنے سابق عہدے پر جلوہ افروز ہو سکیں
یہ بھی معلوم ہوا ہے جب سے شہباز شریف صاحب کو وزارت عظمیٰ کی بجائے وزیراعلیٰ کے طور پر کام جاری رکھنے کے لئے کہا گیا ہے تب مندرجہ بالا فارمولے کی تفصیلات طے کی جا رہی ہیں۔ مسلم لیگ ن کے مخالفین کے لئے نوامشریف کی بیگم کا وزیراعظم بننا اور نوازشریف کا عملاً وزیراعظم ہاﺅس موجود رہنا زبردست دھچکا ہو گا اور مخالفین کی امیدیں خس و خاشاک کی طرح بہہ جائیں گی۔ یہی نہیں بلکہ سابق وزیراعظم کی وزیراعظم ہاﺅس واپسی بیورو کریسی اور وفاقی اداروں کے علاوہ عدلیہ کی صفوں اور مقتدر قوتوں کیلئے واضح پیغام ہو گا اور نیب میں بھیجے جانے والے ریفرنس کا بھی شریف فیملی وزیراعظم ہاﺅس میں بیٹھ کر زیادہ موثر طریقے سے قانونی جنگ لڑ سکے گی۔ آخری اطلاع آنے تک اس منصوبے پر غور و فکر کے بعد سابق وزیراعظم سے حتمی منظوری حاصل کی جائے گی اور آئندہ 24 سے48 گھنٹے میں اس پلان کا اعلان متوقع ہے۔