اسلام آباد (این این آئی)وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے خلیج تنازع کے دوران اسلامی فوجی اتحاد کی سربراہی پر اٹھائے جانے والے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے کا ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف ذاتی حیثیت میں اسلامی اتحاد فورس کی سربراہی میں گئے ہیں اور انہیں سرکاری طور پر نہیں بھجوایا گیا۔ بدھ کو سینٹ کی خارجہ امور کمیٹی کا اجلاس چیئرمین نزہت صادق کی زیر صدارت ہوا
جس میں مشیر خارجہ سرتاج عزیز کو سعودی عرب اور قطر تنازع پر بریفنگ دی گئی۔اجلاس کے دوران کمیٹی نے حکومت سے سعودی عرب اور قطر کشیدگی کے معاملے پر غیر جانبدارانہ مصالحتی کردار ادا کرنے کی سفارش کی۔کمیٹی کے چیئرمین نزہت صادق نے بتایا کہ تنازع کے حل کیلئے وزیراعظم نواز شریف کی سعودی فرماں روا شاہ سلمان کے علاوہ امیر قطر سے بھی بات ہوئی ہے۔مشیرخارجہ سرتاج عزیز نے مشرق وسطیٰ بالخصوص سعودی عرب۔قطر تنازع پر بات کرتے ہوئے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ پاکستان ٗقطر ٗسعودی تنازع میں غیرجانبدارانہ پالیسی پر کاربند ہے۔انہوں نے کہاکہ یمن ٗسعودی عرب تنازع پر منظور ہونے والی پارلیمانی قرارداد، موجودہ خلیجی بحران میں پاکستان کی پالیسی کا بنیادی نکتہ ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر کریم خواجہ نے کہاکہ سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو رضاکارانہ طور پر واپس آجانا چاہیے ٗسعودی عرب اگر اس طرح بھرتیاں کرے گا تو ایران بھی ایسا کریگا۔انہوں نے کہاکہ وہ خلیجی بحران میں پاکستان کے کردار سے مطمئن نہیں۔اس موقع پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ راحیل شریف کو واپس بلانے سے پاک ٗسعودی عرب تعلقات خراب ہوں گے ٗپاکستان کا 50 فیصد زرمبادلہ خلیجی ممالک سے آتا ہے اور پاکستان اتنے بڑے نقصان کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
قانون سازوں کے خدشات پر سرتاج عزیز نے کمیٹی کو یقین دہانی کرائی کہ پاکستان کسی دوسرے ملک کے مسئلے میں مداخلت نہیں کرے گا۔کمیٹی کی چیرپرسن نزہت صادق نے کہا کہ پاکستان نے سعودی قطر تنازع میں مصالحتی کردار ادا کرنے کی کوشش کی ہے اور اس سلسلے میں وزیراعظم نواز شریف کی سعودی شاہ سلمان اور امیر قطر تمیم بن حماد الثانی سے فون پر بات چیت ہوئی ہے۔سینیٹ کمیٹی نے سفارش کی کہ پاکستان خلیجی بحران میں غیر جانبدار رہ کر مصالحتی کردار ادا کرے۔