اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ آف پاکستان نے اٹارنی جنرل کو جے آئی ٹی کے تحفظات کا تفصیلی جائزہ لینے کی ہدایت کرتے ہوئے تصویر لیک کے معاملے پر فیصلہ محفوظ کرلیا ہے جبکہ ججز نے ریمارکس دیئے ہیں کہ جے آئی ٹی کے الزامات انتہائی سنجیدہ ہیں، رکاوٹوں کو کسی صورت برداشت نہیں کریں گے۔ بدھ کو سپریم کورٹ میں حسین نواز تصویر لیک اور جے آئی ٹی ارکان کو دھمکیاں موصول ہونے
کے معاملے پر کیس کی سماعت جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بینچ نے کی۔حسین نواز کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ جے آئی ٹی رپورٹ پر جواب جمع کرادیا ہے جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے اٹارنی جنرل سے رپورٹ کا پوچھا تو اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں نے رپورٹ نہیں دیکھی۔حسین نواز کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ جے آئی ٹی نے تصویر لیک ہونے کا اعتراف کیا ہے، اسکے نتائج کیا ہونگے ٗاس سے بھی آگاہ کرونگا، ضابطہ فوجداری کی دفعہ 161 کے تحت زبانی تحقیقات ہوسکتی ہیں۔خواجہ حارث نے دلائل دیئے کہ ہر تحریری بیان کا الگ ریکارڈ بنایا جاتا ہے، قانون میں صرف تحریری بیان کی حد تک اجازت ہے، ویڈیو بیان کو بطور شواہد استعمال نہیں کیا جاسکتا، قانون ویڈیو ریکارڈنگ کی اجازت نہیں دیتا، ویڈیو لیک ہوئی تو اس کے اثرات موجودہ صورتحال سے زیادہ ہوں گے۔جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیاکہ دفعہ 161 کا بیان بطور ٹھوس ثبوت تسلیم نہیں ہوتا ٗ ابھی وہ مرحلہ نہیں آیا جہاں ایسے بیانات کا جائزہ لیں، دفعہ 161 کا بیان صرف بیانات میں تضاد کیلئے استعمال ہوسکتا ہے۔انھوں نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ویڈیو ریکارڈنگ سے بیان محفوظ بھی ہو جائے تو بیان زبانی ہی رہے گا، ویڈیو ریکارڈنگ سے بیان کی حیثیت تبدیل نہیں ہوگی، ریکارڈنگ کا مقصد صرف درست متن لینا ہے،
ویڈیو ریکارڈنگ سے کوئی حقوق متاثر نہیں ہورہے۔خواجہ حارث نے کہا کہ درست ریکارڈ ویڈیو ریکارڈنگ سے پہلے بھی مرتب کیا جاتا تھا جس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ہم 1889 میں نہیں رہ رہے، ٹیکنالوجی کا استعمال کرنا کوئی بری بات نہیں، صرف بیان کا درست متن ریکارڈ پر لانا ہی ویڈیو ریکارڈنگ کا مقصد ہے۔حسین نواز کے وکیل نے کہا کہ زبردستی کسی سے اقبال جرم نہیں کروایا جا سکتا، ویڈیو ریکارڈنگ میں ایسا ہی کیا جا رہا ہے، گواہ تحقیقاتی ٹیم کے سامنے بیان دینے کے لیے آزاد ہوتا ہے، اگر بطور ثبوت استعمال نہیں ہوسکتا تو ویڈیو کی کیا ضرورت ہے، کوئی قانون ویڈیو ریکارڈنگ کی اجازت نہیں دیتا، ویڈیو بنانا دراصل گواہ سے بیان پر دستخط کروانا ہے، تحریر کردہ بیان پر زبردستی دستخط نہیں کروائے جا سکتے۔ انہوں نے کہاکہ اگر وڈیو بیان کی کوئی حیثیت نہیں تو اسے ریکارڈ کیوں کیا جا رہا ہے، کوئی ایسا آرڈر پاس نہیں ہو سکتا جو قانون کے متصادم ہو۔جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ وڈیو ریکارڈنگ کا سکوپ محدود ہے، آپ کہنا چاہتے ہیں کہ وڈیو ریکارڈنگ تحریر کردہ بیان پر دستخط کرنے کے مترادف ہے، دفعہ 161 کا بیان صرف جرح کے لیے استعمال ہو سکتا ہے۔
جسٹس عظمت نے کہا کہ کوئی گواہ تحقیقات کے بعد عدالت میں نیا موقف نہیں اپنا سکتا جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ ویڈیو ریکارڈنگ کے دوران گواہ پر خوف رہتا ہے، قانون میں ویڈیو ریکارڈنگ کی کوئی گنجائش نہیں، میں ریکارڈنگ کے نفسیاتی پہلو کی نشاندہی کررہا ہوں۔جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ویڈیو بیان ہو یا تحریری، قانون کے مطابق جانچا جاتا ہے جس پر حسین نواز کے وکیل نے اپنے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ گواہان پر بیان تبدیل کرنے کیلئے دباؤ ڈالا جا رہا ہے، عدالت ویڈیو ریکارڈنگ کا جائزہ لے، جائزہ لیا جائے کہ ریکارڈنگ میں ٹمپرنگ تو نہیں ہوئی، جے آئی ٹی بھی کہتی ہے کہ ویڈیو ریکارڈنگ کا عدالت جائزہ لے، اگر ویڈیو ریکارڈنگ میں ٹمپرنگ ہوئی تو اسکے کیا نتائج ہونگے۔انھوں نے کہا کہ وزیراعظم کی ویڈیو کل سوشل میڈیا پر آگئی تو کون ذمہ دار ہوگا ٗجے آئی ٹی اپنی حرکتوں پر خود کیسے جج بن سکتی ہے،
عدالت جے آئی ٹی کو ویڈیو ریکارڈنگ سے روکے، ویڈیو کسی کے بھی ہاتھ لگ سکتی ہے تصویر لیکس کے لیے کمیشن بنایا جائے۔جسٹس عظمت سعید شیخ نے پوچھا تصویر کی لیکیج نے کیا نقصان پہنچایا؟ جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ وڈیو سے آپ کو نقصان پہنچنے والی کہانی سمجھ نہیں آرہی۔حسین نواز کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیئے کہ قانون ویڈیو ریکارڈنگ کی اجازت نہیں دیتا، ویڈیو لیک ہوئی تو اثرات موجودہ صورتحال سے زیادہ ابترہوں گے۔جسٹس عظمت سعیدشیخ نے استفسار کیا کہ تصویر لیک ہونے میں کیا مسئلہ ہے، تصویر میں ایک شخص عزت کے ساتھ کرسی پر بیٹھا ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اعتراضات قانونی کم اور سیاسی زیادہ لگتے ہیں ٗجو جے آئی ٹی کے کام میں رکاوٹیں ڈال رہا ہے وہ سپریم کورٹ کی راہ میں رکاوٹیں ڈال رہا ہے،وڈیو رکارڈنگ آپکونقصان پہنچانے سے زیادہ آپکا تحفظ بھی کریگی۔
حسین نواز کے وکیل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد اٹارنی جنرل آف پاکستان نے بھی ویڈیو ریکارڈنگ کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ جے آئی ٹی کو آڈیو اور وڈیو ریکارڈنگ کی اجازت دینا عدالت کی طرف سے قانون سازی ہوگی، عدالت خود قانون میں گنجائش پیدا نہیں کرسکتی، جس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ آپ خواجہ حارث کے ساتھ متفق ہیں، جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیئے کہ عدالت میں ہونے والی گفتگو بھی ریکارڈ ہوتی ہے، کیا آپ اس پر بھی اعتراض کریں گے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت میں صرف قانونی گفتگو ہوتی ہے۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے وڈیو ریکارنگ سے متعلق درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔جے آئی ٹی کی درخواست پر سماعت کے دوران جسٹس اعجاز افضل نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے جے آئی ٹی کی درخواست پڑھی ہوگی،
جے آئی ٹی کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا عدالتی حکم کی خلاف ورزی ہے، جو جے آئی ٹی کے کام میں رکاوٹیں ڈال رہا ہے وہ سپریم کورٹ کی راہ میں رکاوٹیں ڈال رہا ہے، جے آئی ٹی کے تحفظات کا تفصیلی جائزہ لیں رکاوٹوں کو کسی صورت برداشت نہیں کریں گے۔ جسٹس شیخ عظمت نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی کے الزامات انتہائی سنجیدہ ہیں، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ جے آئی ٹی درخواست پر جمعرات کو عدالت کی معاونت کرسکتے ہیں۔ نجی ٹی وی کے مطابق جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ہمیں دکھ ہوا کہ فیصلہ پڑھے بغیر تنقید کرتے ہیں، بدقسمتی سے میڈیا کے ذمہ داران بھی جھوٹ بول رہے ہیں،
بہتر ہو گا میڈیا پر رائے دینے والے فیصلہ پڑھ کر رائے دیں۔ ہم ساری مہم سے آگاہ ہیں لیکن عوام کی رائے کی پرواہ کئے بغیر قانون پر فیصلہ دیں گے، خطرے بھی ہمیں راستے سے نہیں ہٹا سکتے، جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ کل فیصلے کے وقت عدالت کی توہین کرنے والے افراد کو بھی ڈیل کریں گے جسٹس عظمت سعید شیخ نے تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں ہمیں کچھ نظر نہیں آ رہا،کتنے آدمی ہیں وہ سات یا آٹھ آدمی ہی تو ہیں۔ درخواست کی مزید سماعت جمعرات کو ہوگی۔