اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے پاناماعملدرآمد کیس کی سماعت کی۔تفصیلات کے مطابق جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے پاناماعملدرآمد کیس کی سماعت کی اورجے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء نے سربمہر لفافے میں تحقیقاتی رپورٹ پیش کی۔بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیئے کہ تصویر کس نے لیک کی
اور اس کیخلاف کیا کارروائی ہوئی رپورٹ میں سب موجود ہے۔ جے آئی ٹی کو اعتراض نہ ہو تو رپورٹ پبلک بھی کی جا سکتی ہے۔عدالت نے حسین نواز کے وکیل کو جے آئی ٹی رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد جواب جمع کرانے کی ہدایت کر دی۔ عدالت نے جے آئی ٹی کو درپیش مشکلات کے حوالے سے درخواست پر بھی سماعت کی۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ سنگین الزامات ہیں کہ ریاستی ادارے ریکارڈ میں ٹمپرنگ اور تبدیلی کر رہے ہیں اگر ریکارڈ تبدیل کیا گیا تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔انہوں نے استفسار کیا کہ جن ریاستی فنکشنریز کو جے آئی ٹی بلاتی ہے وہ سپریم کورٹ کو خط کیوں لکھ رہے ہیں؟۔ دوران سماعت حسین نواز کے وکیل خواجہ حارث نے گواہوں کی ریکارڈنگ کا معاملہ بھی اٹھایا۔ جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس میں کہا کہ ویڈیو ریکارڈنگ پر کوئی قانونی پابندی نہیں، ویڈیو ریکارڈنگ کا مقصد ٹرانسکرپٹ تیار کرنا بھی ہوتا ہے، البتہ بعض اداروں پر ریکارڈ میں تبدیلی کا سنگین الزام ہے۔جسٹس شیخ عظمت سعید کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی نے رکاوٹیں ڈالنے سے متعلق بھی درخواست دی ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اداروں کے سربراہ پیشی کے بعد سپریم کورٹ کو خط لکھتے ہیں جو میڈیا کو بھی جاری کیا جاتا ہے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل صاحب اس معاملے پر بھی غور کریں۔
جسٹس اعجاز افضل نے ایک بار پھر واضح کیا کہ جے آئی ٹی کے پاس ساٹھ دن کا وقت ہے تحقیقات مقررہ مدت میں مکمل ہونی چاہئے۔عدالت نے جے آئی ٹی کی درخواست اور حسین نواز کی تصویر لیک سے متعلق اٹارنی جنرل سے جواب طلب کیا اور جے آئی ٹی کی کارروائی کی ریکارڈنگ سے متعلق رائے طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔