پشاور(آن لائن) عبدالوالی خان یونی ورسٹی میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں قتل ہونے والے مشال خان کے قتل کی تفتیش کرنے والی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کی رپورٹ میں سنسنی خیز انکشافات سامنے آگئے، رپورٹ کے مطابق مرنے سے قبل مشال نے کہا کہ میں مسلمان ہوں، کلمہ پڑھا اور اسپتال پہنچانے کی التجا کی۔ مشال خان کے خلاف منصوبہ بندی کرکے غلط توہین رسالت کا پروپگنڈا کیا گیا۔ عبدالوالی خان یونی ورسٹی میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں قتل ہونے والے
مشال خان کے قتل کی تفتیش کرنے والی 13 رکنی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم نے رپورٹ تیار کرلی ہے، جس میں سنسنی خیز انکشافات کیے گئے ہیں۔ تحقیقاتی ٹیم کے مطابق مشال خان کا قتل باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا، مخصوص سیاسی گروہ کو مشال کی سرگرمیوں سے خطرہ تھا، مشال یونیورسٹی میں بے ضابطگیوں کیخلاف کھل کر بولتا تھا، جب کہ تحقیقات سے پتا چلا کہ مشال خان کے خلاف توہین رسالت یا مذہب کا کوئی ثبوت موجود نہیں۔ جے آئی ٹی کے مطابق مخصوص گروپ نے توہین رسالت کے نام پر لوگوں کو اکسایا، تشدد کے بعد مشال سے آخری بار ہاسٹل وارڈن کی بات ہوئی، مشال نے کہا کہ میں مسلمان ہوں، پھر کلمہ پڑھا اور اسپتال پہنچانے کی التجا کرتا رہا۔ جے آئی ٹی کی تفتیش میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ رجسٹرار سے لے کر سیکیورٹی افسر تک یونی ورسٹی میں نااہل سفارشی لوگ تعینات ہیں، سیاسی اور نااہل افراد کی بھرتی سے یونیورسٹی کا نظام درہم برہم ہے۔رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ یونیورسٹی میں منشیات اور اسلحہ کا استعمال اور طالبات کا استحصال عام ہے، یونی ورسٹی کے بیشتر ملازمین مجرمانہ ریکارڈ رکھتے ہیں، رپورٹ میں پولیس کی کارکردگی سے متعلق انکشاف کیا گیا ہے کہ واقعہ کے دوران پولیس کردار پر بھی سوالات موجود ہیں، پولیس کی جانب سے بروقت کارروائی نہیں کی گئی۔جے آئی ٹی کی رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ غفلت کے مرتکب افسران اور اہلکاروں کی نشاندہی کر کے کارروائی کی جائے،
جب کہ اب تک کیس میں ملوث57 ملزموں میں54گرفتار کیے گئے ہیں، جس میں ،12 ملازمین شامل ہیں۔