ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

معزز جج کے کلمات پر حکومت کی جانب سے افسوس کے اظہار کا مطلب حکومت اور عدلیہ میں محاذ آرائی یا تصادم نہیں، چودھری نثار

datetime 3  جون‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (این این آئی) وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ کسی ایک معزز جج کے مقالمے یاکلمات پرحکومت کی جانب سے دکھ اور افسوس کے اظہار کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ حکومت اور عدلیہ میں کسی قسم کی محاذ آرائی ہونے چلی ہے یا تصادم کی صورتحال پیدا ہو گئی ہے، نقطہ نظر کے اختلاف کو تصادم سے تشبیہ دینا اورہرمعاملے کو اپنے سیاسی مفادات کے حصول کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کرنا دراصل اس سوچ کی عکاسی کرتا ہے جو ملک میں استحکام کی بجائے ٹکراؤ اور انتشار چاہتی ہے۔

وزارت داخلہ سے جاری بیان کے مطابق وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے کہا کہ بدقسمتی سے بعض عناصر نے اس بات کا ٹھیکہ اٹھا لیا ہے کہ وہ اداروں اور حکومت کے درمیان غلط فہمیوں کو ہوا دیں اورکسی بھی نوعیت کے معاملے پر سیاسی بیان بازی اورپوائنٹ سکورنگ کی روش کو اس انتہا پر لے جا کر اپنے سیاسی مفادات حاصل کریں۔انہوں نے کہا کہ آج عدلیہ اورجج صاحبان کے خود ساختہ محافظ بننے والے شاید یہ بھول گئے ہیں کہ انکے اپنے دورِ اقتدار میں کس طرح اداروں کو تضحیک اور تمسخر کا نشانہ بنایا جاتا رہا اور کس طرح بڑے بڑے ایوانوں اور اعلیٰ عہدوں پر فائز لوگوں کی جانب سے عدالتی شخصیات کی توہین اور عدالتی فیصلوں کی کھلم کھلا نفی کی جاتی رہی۔ انہوں نے کہا کہ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے ججوں کو فیصلوں سے روکنے کے لئے ان پر سیاہی پھینکی۔ اعلیٰ ترین عدالتی فیصلوں کو چمک سے تعبیر کیاگیا۔ سپریم کورٹ میں پنجابی اور غیر پنجابی کی تفریق ڈالی گئی، پی سی او ججز کی آبیاری کی گئی اور انہیں اعلیٰ عدالتی منصبوں پر فائز کیا گیا۔ دوسری طرف اس گروہ میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو صرف ان عدالتی فیصلوں کو مانتے ہیں جو انکے حق میں کیے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ تاریخ اتنی پرانی نہیں ہے کہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس کی سربراہی میں ایک لارجر بینچ نے ایک فیصلہ دیا جسکو نہ صرف قبول نہ کیا گیابلکہ اسکا مذاق بھی اڑا یا گیا۔

انہوں نے کہا کہ آج یہی لوگ ایک ایسے مسئلے کو رائی کا پہاڑ بنانے پر تلے ہیں جس پر حکومت نے فوری ردعمل کا اظہار کیا اور اپنے کارکن کے خلاف بر وقت تادیبی کاروائی کی۔وزیر داخلہ نے کہا کہ حیرانگی کا مقام یہ ہے کہ اس میں اس پارٹی کے اکابرین بھی چیخ چلا رہے ہیں جسکے پارٹی ترجمان نے کچھ عرصے پہلے عدلیہ اور افواجِ پاکستان کو 2013 کے الیکشن میں دھاندلی کا ذمہ دار قرار دیا۔ نہ صرف یہ کہ انکے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی گئی بلکہ اب بھی وہ اس پارٹی کے ترجمان ہیں۔ پاکستانی قوم اس دہرے معیار کو کیا نام دے؟۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…