اتوار‬‮ ، 17 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

بھارت جو مرضی کرلے یہ کام تو اسے کرنا ہی ہوگا،افغانستان نے ہمیشہ پاکستان کے ساتھ کیا، کیا؟پاکستانی سفیرکے انکشافات

datetime 24  مئی‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

نئی دہلی (آئی این پی )بھارت میں تعینات پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر ہمارے تمام مسائل کی جڑ ہے،جب تک ہم اس مسئلے کو کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل نہیں کریں گے اس خطے میں امن کو قائم رکھنا مشکل ہوجائے گا۔بھارتی اخبار ’’ دی اسٹیٹسمین‘‘ کو دیئے گئے انٹرویو میں عبدالباسط نے کہاکہ ہمیں مسئلہ کشمیر کے حل سے دور نہیں بھاگنا چاہیئے کیونکہ یہ مسئلہ ہماری باہمی بد اعتمادی کی وجہ ہے۔

ہم اس مسئلہ پر جنگیں لڑ چکے ہیں۔ بھارت بھی مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی ضرورت پر رضا مندی ظاہر کرتا ہے اب چاہے آپ اس کے لیے اقوام متحدہ کی قرارداد کو لیں یا شملہ معاہدے کو لیں یا قرار داد لاہور کو لیں یا پھر مشترکہ اسلام آباد اعلامیہ کو لیں۔ ہمیں بیٹھ کر اس مسئلہ کو خوش اسلوبی سے حل کرنا چاہیئے۔ ایک مرتبہ مسئلہ کشمیر حل ہوگیا تو دونوں ممالک کے درمیان بمشکل ہی کوئی ایسا مسئلہ باقی رہے گا جو آسانی اور جلدی سے حل نہ ہوسکے۔ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہاکہ ہم بات چیت کے لیے پیشگی شرائط رکھنے پر یقین نہیں رکھتے۔ اگر ہم ان تمام مسائل کو حل کر سکتے ہیں تو دونوں ممالک کے درمیان بات چیت کے لیے شائد ہی کوئی ایسا مسئلہ باقی رہ جائے۔ ہمارا طریقہ کار زیادہ عملی ہے کیونکہ ہمیں دہشت گردی کے بھی خدشات ہیں۔ کلبھوشن یادیو کی سزا سے صاف ظاہر ہے کہ پاکستان بھی دہشت گردی کا شکار ہے جس کا تعلق اندرونی اور بیرونی طول و عرض سے ہے۔ میرا خیال ہے کہ پاکستان اور بھارت کو کبھی نہ کبھی مذاکرات کی میز پر آنا ہی ہوگا۔ میں اس چیز کا قائل نہیں ہوں کہ ہم ہمیشہ دشمن بن کر رہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ کہا ہے کہ کشمیر میں جاری تحریک ان کی علاقائی تحریک ہے۔ ہمیں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دہائیوں سے جموں اور کشمیر کے عوام اپنے حق خود ارادیت کے لیے جدو جہد کر رہے ہیں

جو کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ میں بھی شامل ہے۔ یہ ایک جائز جدو جہد ہے لہذا میرا نہیں خیال کہ پاکستان وہاں لوگوں حمایت کر کے کسی بھی طرح ماحول میں بگاڑ پیدا کر سکتا ہے۔ بھارت کے اندر کئی آوازیں موجود ہیں جو مسئلہ کشمیر کو سیاسی طور پر حل کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔کلبھوشن یادیو کو قونصلر رسائی دینے سے متعلق سوال پر عبدالباسط نے کہاکہ آئی سی جے نے اپنے عبوری فیصلے میں عدالت کے مقدمہ سننے کے اختیارا پر بات کی، لہذا قونصلر رسائی کے معاملے پر کوئی حکم نہیں دیا گیا۔ آئی سی جے نے واضح کردیا تھا کہ اس عبوری فیصلے سے حتمی نتیجے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ ہمیں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کمانڈر یادیو ایک عام بھارتی شہری نہیں ہے۔ اسے تخریب کاری، دہشت گردی اور بغاوت پر اکسانے کے الزام میں سزا دی گئی ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ کہا ہے کہ وہ کلبھوشن کے خلاف ٹھوس شواہد فراہم کرے گا ہمیں پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں یادیو کے ملوث ہونے میں ذرہ برابر بھی شک نہیں ہے۔ پاکستان کی پوزیشن کلبھوشن کیس میں نہایت مضبوط ہے۔ بھارتی صنعتکار سجن جندال کے دورہ پاکستان کے حوالے سے پاکستانی ہائی کمشنر نے کہاکہ سجن جندال اوروزیر اعظم نواز شریف ایک دوسرے کو کافی برسوں سے جانتے ہیں لہذا اس دورے میں کچھ بھی سرکاری نہیں تھا۔

ایک سوال کے جواب میں عبدالباسط نے کہاکہ مسئلہ کشمیر یہ ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے اور اس پر اقوام متحدہ کی قرارداد موجود ہیں۔ اگر بھارت چاہتا ہے کہ دونوں ممالک بات چیت کے ذریعے اس مسئلے کو حل کریں تو یہ دو طرفہ مسئلہ شملہ معاہدے کے تحت بھی حل ہو سکتا ہے اور پاکستان اس مسئلے کو دوطرفہ بات چیت سے بھی حل کرنے کے لیے تیار ہے لیکن اس معاہدے کو 47 سال گزرگئے، میں نہیں جانتا کہ اب اس پر دوطرفہ بات چیت کے لیے مزید کتنے سال لگیں گے۔ میرا خیال ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ بھارت خود احتسابی کرے۔ پاکستان نتیجہ خیز دو طرفہ بات چیت کے خلاف نہیں ہے۔انھوں نے کہا کہ بھارتی فوجیوں کی لاشوں کی بے حرمتی محض الزامات ہیں، پاکستانی فوج ایک پیشہ ور اور دنیا کی بہترین افواج میں سے ایک ہے۔ ہم ایسے کاموں میں ملوث نہیں ہیں اور جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو پاکستان کی جانب سے کبھی بھی بھارتی فوجیوں کا سر قلم نہیں کیا گیا۔

انھوں نے کہاکہ افغانستان کے ساتھ پاکستان کی 2500 کلومیٹر طویل سرحد لگتی ہے، افغانستان ہمارا قریبی ہمسایہ ہے لہذا وہاں جو بھی ہوتا ہے اس سے پاکستان اثر انداز ہوتا ہے اسی لیے افغانستان میں امن و استحکام ہمارے ملک میں امن و استحکام کے لیے اہم ہے۔افغانستان ایک خود مختار ملک ہے اور اسے کسی بھی ملک کے ساتھ روابط رکھنے کا مکمل حق ہے ہمیں ان روابط پر کوئی خدشات نہیں جب تک یہ ہم پر براہ راست اثر نہ انداز ہوں۔ بدقسمتی سے ہم نے ماضی میں دیکھا ہے کہ جب بھی پاکستان کو غیر مستحکم کیا گیا ہے وہ کوشش افغانستان کے ذریعے کی گئی ہے۔ ہم افغانستان سے رابطے میں ہیں اور کابل سے برادرانہ تعلقات کے تناظر میں ہمیں امید ہے کہ ان کی سرزمین پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے استعمال نہیں ہوگی خصوصا بلوچستان اور فاٹا کے علاقوں میں۔

موضوعات:



کالم



بس وکٹ نہیں چھوڑنی


ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

ملک کا واحد سیاست دان

میاں نواز شریف 2018ء کے الیکشن کے بعد خاموش ہو کر…