ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

پاکستان نے افغانستان کو اب تک کی سب سے بڑی پیشکش کر دی

datetime 18  مئی‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

واشنگٹن(این این آئی)امریکہ میں تعینات پاکستانی سفیر اعزاز احمد چوہدری نے کہاہے کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی کردار پر امریکی نظریہ پاکستان میں تیزی سے بدلتے ہوئے زمینی حقائق کی عکاسی نہیں کرتا ٗسی پیک منصوبہ پاکستان اور امریکہ تعلقات پر اثر انداز نہیں ہوگا ٗافغانستان سی پیک میں شامل ہو کر فائدہ اٹھائے ٗ افغانستان میں ہونے والی کسی بھی کارروائی کا الزام پاکستان پر لگانا سراسر غلط

ہے ٗالزامات لگانے سے مسائل حل نہیں ہونگے ٗ افغان تنازع کا فوجی حل نہیں ٗ پاکستان اور افغانستان کے مابین بہتر بارڈر مینجمنٹ ہونی چاہیے ٗپاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات بہتر ہونے چاہئیں ٗ نئی دہلی انتظامیہ کسی بھی دہشت گرد حملے کے بعد دوطرفہ مذاکرات کو منسوخ کرکے دہشت گردوں کا آلہ کار بنتی ہے۔ورلڈ افیئرز کونسل کے اجلاس کے دوران اپنے خطاب میں پاکستانی سفیر اعزاز احمد چوہدری نے کہاکہ چائنا پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات پر اثر انداز نہیں ہوگا جبکہ انہوں نے افغانستان پر زور دیا کہ وہ سی پیک منصوبہ میں شامل ہو کر اس سے فائدہ اٹھائے۔انہوںنے کہاکہ پاکستان امریکا کے ساتھ معاشی اعتبار سے بہتر تعلقات چاہتا ہے جبکہ پاکستان کو ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے مثبت اشارے موصول ہورہے ہیں اور پاکستان یہ سمجھتا ہے کہ یہ تعلق دونوں ممالک کے لیے فائدہ مند ہو سکتا ہے۔اعزاز احمد چوہدری نے کہا کہ پاکستان امریکی افواج کی افغانستان میں موجود گی کی امریکی خواہش اور افغان سیکیورٹی فورسز کو مضبوط بنانے کی امریکی نیک نیتی کو سمجھتا ہے لیکن افغانستان میں ہونے والی کسی بھی کارروائی کا الزام پاکستان پر لگانا سراسر غلط ہے۔پاکستانی سفیر کا کہنا تھا کہ پاکستان پر الزام لگانے سے افغانستان کے مسائل حل نہیں ہوں گے اور نہ ہی یہ حکمت عملی کارگر ہوگی۔

اعزاز چوہدری نے واضح کیا کہ امریکی بیان پاکستان میں تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال کی ہرگز عکاسی نہیں کرتا جبکہ کوئی بھی نام نہاد جہاد کی حمایت نہیں کرتا یہاں تک کے دائیں بازو کی جماعتیں بھی ان کی حامی نہیں۔پاکستانی سفیر نے بتایا کہ یہ نظریہ تبدیل ہوچکا ہے جب سے ان دہشت گردوں نے اسکولوں اور عبادت گاہوں پر حملہ کرکے معصوم لوگوں کو نشانہ بنانا شروع کیا اور جب آپ عورتوں اور بچوں کو قتل

کرنا شروع کرتے ہیں تو پھر یہ جنگ مقدس نہیں رہتی۔انہوں نے کہا کہ اب پاکستان میں ان شدت پسندوں کے خلاف قومی اتفاق رائے موجود ہے تاہم یہ اتفاق رائے پاکستان کے حوالے سے امریکی نظریے میں نظر نہیں آتا۔اعزاز احمد چوہدری نے کہا کہ پاکستان نے افغانستان کی صورتحال پر امریکا کے ساتھ چار نکاتی ایجنڈے کی تجویز شیئر کی ہے۔انہوںنے کہاکہ افغان تنازع کا کوئی فوجی حل نہیں ہے، سیاسی حکمت عملی کی

ضرورت ہے جو ملک میں افغان طالبان کے کردار کو وضع کرے، باغیوں کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں پاکستان اور افغانستان کے مابین بہتر بارڈر مینجمنٹ ہونی چاہیے۔انہوںنے کہاکہ ان طویل مدتی اتحادی ممالک کے درمیان سیکیورٹی سب سے اہم مسئلہ ہے جبکہ پاکستان امریکا کے ساتھ پچھلے کچھ برسوں میں پیدا ہونے والی تمام غلط فہمیوں کو ختم کرنے کے حوالے سے مل کر کام کرنے کیلئے تیار ہے۔ایبٹ آباد میں

اسامہ بن لادن کی موجودگی پر ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اسامہ بن لادن پاکستان کی پیداوار نہیں بلکہ ہمیں تو خوشی ہے کہ وہ مارا گیا تاہم جس طریقے سے اسے مارا گیا اس پر ہمیں خوشی نہیں ہے اور نہ ہی اس طرح اپنے اتحادیوں کیساتھ برتاؤ کیا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر امریکہ نے پاکستان کو آگاہ کیا ہوتا تو بھی نتیجہ وہی نکلتا کیوں کہ پاکستان بھی اسامہ بن لادن سے نجات حاصل کرنا چاہتا تھا۔

افغانستان میں جاری انتہا پسندی میں پاکستانی کردار کو مسترد کرتے ہوئے انہوںنے کہاکہ پاکستانی عوام، حکومت اور اس کے تمام اداروں بشمول فوج کے مستحکم افغانستان میں حقیقی مفادات ہیں۔انہوں نے کہا کہ افغانستان اپنی سرزمین پر ہونے والے دہشت گرد حملوں کا الزام پاکستان پر لگاتا ہے جبکہ پاکستان بھی اپنی سرزمین پر ہونے والی کارروائیوں کا ذمہ دار افغانستان کو ٹھہراتا ہے۔انہوں نے کہا کہ بہتر بارڈر مینجمنٹ

اور دونوں ممالک کی حکومتوں کے درمیان بہتر تعلقات ہی الزام تراشیوں کے اس کھیل کو ختم کرنے کا واحد حل ہے۔انہوں نے بتایا کہ اگر افغانستان غیر مستحکم ہوگا تو پاکستان میں بھی امن و استحکام نہیں آسکتا اس کے علاوہ انہوں نے اشارہ دیا کہ افغانستان میں جاری شورش کی صورتحال نے پاکستان سمیت دیگر جنوبی ایشیائی ممالک کو وسطی ایشیا سے بجلی اور گیس حاصل کرنے سے محروم رکھا ہے۔اعزازچوہدری نے

پاکستان اور بھارت کے درمیان بہتر تعلقات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ نئی دہلی انتظامیہ کسی بھی دہشت گرد حملے کے بعد دوطرفہ مذاکرات کو منسوخ کرکے دہشت گردوں کا آلہ کار بنتی ہے۔انہوں نے کہا کہ ایسے دہشت گرد حملوں کا جواب مزید بات چیت کو آگے بڑھانا ہے نہ کہ کم کرنا۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی توجہ ملکی معیشت کو بہتر بنانے پر مرکوز ہے اس لیے پاکستان اپنی سرحدوں پر کشیدہ صورتحال کا متحمل نہیں

ہوسکتا اور اسی مقصد کے لیے پاکستان اپنے دونوں ہمسایہ ممالک افغانستان اور بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات کی کوشش کر رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ جنوبی ایشیائی خطے کو مستحکم کرنے کے لیے پاکستان بھارت کیساتھ بھی تعلقات بہتر کرنے کا خواہاں ہے اور نئی دہلی کے ساتھ ہمیشہ مذاکرات کرنا چاہتا ہے۔اعزاز چوہدری نے کہا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ برابری اور باہمی وقار کی بنیاد پر تعلقات چاہتا ہے جبکہ پاکستان کو کسی بھی قسم کی بالادستی قبول نہیں۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…