اسلام آباد( آئی این پی ) جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ کم عمری میں قبول اسلام بارے سندھ اسمبلی کے بل کوتمام جماعتوں نے مسترد کردیا،جبراً کسی کو بھی مسلمان نہیں بنایا جاسکتا 18 سال کیا بوڑھے شخص کو بھی جبرا مسلمان نہیں بنایا جاسکتا،لیکن کسی کو اسلام قبول کرنے سے روکنا بھی تو جبر ہے جو ناقابل قبول ہے،انیشنل ایکشن پلان دبا کے تحت بنایاگیا جس کی کوئی وقعت نہیں،اس ایکشن پلان کو ختم ہونا چاہیے،بتایاجائے کہاں اس پلان سے دہشت گردی کا خاتمہ ہوا،رویوں میں بگاڑ ہے۔ یونیورسٹی سے کوئی پکڑا جائے تو اسے چھپایا جاتا ہے، مدرسہ سے کوئی پکڑا جائے تو اسے اچھالا جاتا ہے،پیپلز پارٹی کے چار نکات سے اتفاق نہیں کرتا۔نیشنل سیکیورٹی کمیٹی قائم کرنے کا بھی مخالف ہوں،عت اسلامی کہتی ہے کمیشن بنائیں،تحریک انصاف کہتی ہے سپریم کورٹ فیصلہ کرے،پہلے اتحادی آپس میں تو متحد ہوجائیں،شادیوں کی ناکامی کی طرح تحریک انصاف کی پالیسیاں بھی ناکامی کا شکار ہیں ،
وہ جمعہ کو یہاں پارلیمنٹ ہاوٗس میں میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے، انہوں نے کہا کہ طیارہ حادثہ انتہائی افسوسناک واقعہ ہے جس پر افسوس ہے،کتنے ایسے واقعات ہوجاتے ہیں لیکن سدباب نہیں ہوتا،ایک بین الاقوامی ماہرین کی مانیٹرنگ ٹیم بلوائی جائے جو تمام طیاروں کا جائزہ لیا جائے ،خود مجھے ایر پورٹ پر کچھ عرصہ قبل 4 گھنٹے انتظار کرایا گیا لیکن پرواز کے بعد پہر دبئی طیارہ خراب ہوگیا،معصوم بچوں سمیت اہم شخصیات ان حادثوں کا شکار ہورہے ہیں۔ اب سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا،تمام جماعتوں نے اس اقلیتی بل کو مسترد کردیا جو سندھ اسمبلی میں منظور ہوا،جبرا کسی کو مسلمان نہیں بنایا جاسکتا 18 سال کیا بوڑھے شخص کو بھی جبرا مسلمان نہیں بنایا جاسکتا،لیکن کسی کو اسلام سے روکنا بھی تو جبر ہے جو ناقابل قبول ہے،افغانستان کے ساتھ تعلقات کچھ بہتر نہیں۔
پاکستان پر ہمسائیہ ممالک کے ساتھ نرم اور دوستانہ رکھنے کی اہم ذمہ داری ہے،افغان مہاجرین کے مسئلہ میں حساسیت تھی۔ جس طرح کے پی حکومت نے پالیسی اختیار کی اس سے بدمزگی پیدا ہوئی تھی،اب وفاقی اور صوبائی حکومت نے اب ایک حکمت عملی طے کرنے پر اتفاق رائے کیا گیا ہے،جب مہاجرین کو کھلا ڈلا چھوڑینگے تو خرابیاں جنم لیتی ہیں،،ایران میں بھی مہاجرین مقیم ہیں،لیکن وہاں قوانین کے تابع بنایا گیا ہے،حکومتی اتحادی ہونے کے باوجود نیشنل ایکشن پلان پر تحفظات ہیں،نیشنل ایکشن پلان میں کچھ ایسے نکات ہیں جس کی بناپر اسے قومی ایکشن پلان نہیں کہا جاسکتا،نیشنل ایکشن پلان دبا کے تحت بنایاگیا جس کی کوئی وقعت نہیں،اس ایکشن پلان کو ختم ہونا چاہیئے۔ بتایاجائے کہاں اس پلان سے دہشت گردی کا خاتمہ ہوا،رویوں میں بگاڑ ہے۔
یونیورسٹی سے کوئی پکڑا جائے تو اسے چھپایا جاتا ہے۔ مدرسہ سے کوئی پکڑا جائے تو اسے اچھالا جاتا ہے۔رویوں سے ہی جمہوریت اور تسلسل سے ہی جمہوریت مستحکم ہوتی ہے،پیپلز پارٹی کے چار نکات سے اتفاق نہیں کرتا، نیشنل سیکیورٹی کمیٹی قائم کرنے کا بھی مخالف ہوں،جمہوریت کو پروان چڑھانے کی خاطر رویوں کی تبدیلی کی جس پر بطور اپوزیشن لیڈر مجھ پہ فرینڈلی اپوزیشن کا الزام لگایا گیا ،میں نے جمہوریت کے تسلسل کی خاطر فرینڈیلی اپوزیشن کا طعنہ برداشت کیا۔ لیکن اپوزیشن جذبات نہیں سنجیدگی سے کی جاتی ہے۔انہوں نے کہاکہ جماعت اسلامی کہتی ہے کمیشن بنائیں۔تحریک انصاف کہتی ہے سپریم کورٹ فیصلہ کرے۔ پہلے اتحادی آپس میں تو متحد ہوجائیں،شادیوں کی ناکامی کی طرح تحریک انصاف کی پالیسیاں بھی ناکامی کا شکار ہیں،اس طرز سیاست پہ ان کو قوم سے معافی مانگنی چاہیئے