اسلام آباد(آئی این پی)بھارت نے مجھے ہوٹل سے باہر نہیں آنے دیا اور سکیورٹی کے نام پر صحافیوں سے بات نہ کرنے دی جس کی وجہ سے واپس آ کر صحافیوں سے بات کرنے کا فیصلہ کیا، بھارت میں سکیورٹی انتظامات تسلی بخش نہیں تھے۔مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ اشرف غنی نے بھارت کو خوش کرنے کیلئے پاکستان کیخلاف بیان دیاجو ناقابل فہم اور قابل مذمت ہے، بھارتی میڈیا نے پاکستان پر دبا ڈالنے کیلئے دہشتگردی کا شوشہ چھوڑا،کسی ملک پر الزام تراشی کرنے سے امن نہیں آ سکتا،میری اشرف غنی سے بھی ملاقات ہوئی میں نے انہیں یقین دلایا کہ پاکستان افغانستان میں امن کے قیام کی خواہش رکھتا ہے، افغان صدر پر واضح کر دیا کہ پاک افغان سرحد پر سکیورٹی کا موثرانتظام ضروری ہے، افغانستان میں سکیورٹی کی صورتحال نہایت کشیدہ ہے، افغانستان اور بھارت میں کوئی بھی حملہ ہو الزام پاکستان پر لگا دیا جاتا ہے حالانکہ ہم امن کو فروغ دینے کیلئے ہر ممکن اقدام اٹھا رہے ہیں،اجیت دوول سے صرف اتنی بات ہوئی کہ اگر ایل او سی پر کشیدگی رہے گی تو بات چیت اور تعلقات کیسے بہتر ہوں گے،بھارت نے مجھے ہوٹل سے باہر نہیں آنے دیا اور سکیورٹی کے نام پر صحافیوں سے بات نہ کرنے دی جس کی وجہ سے واپس آ کر صحافیوں سے بات کرنے کا فیصلہ کیا، بھارت میں سکیورٹی انتظامات تسلی بخش نہیں تھے۔
اتوارکو مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے بھارت کے شہر امرتسر میں منعقد ہونے والی ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کے بعد وطن واپس پہنچنے کے بعد دفتر خارجہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں یکطرفہ تصویر پیش کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس افغانستان سے متعلق تھی اور ہماری خواہش تھی کہ پاک بھارت تعلقات افغانستان میں قیام امن کو متاثر نہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی میڈیا نے پاکستان پر دبا ڈالنے کیلئے دہشتگردی کا شوشہ چھوڑا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اشرف غنی کا بیان ناقابل فہم اور قابل مذمت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اشرف غنی نے بھارت کو خوش کرنے کیلئے بیان دیا۔انہوں نے مزید کہا کہ میری اشرف غنی سے بھی ملاقات ہوئی اور میں نے انہیں یقین دلایا کہ پاکستان افغانستان میں امن کے قیام کی خواہش رکھتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ میں نے افغان صدر پر واضح کر دیا کہ پاک افغان سرحد پر سکیورٹی کا موثر انتظام ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں سکیورٹی کی صورتحال نہایت کشیدہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ میری دیگر ممالک کے وفود سے بھی ملاقاتیں ہوئیں جو نہایت مفید رہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان اور بھارت میں کوئی بھی حملہ ہو الزام پاکستان پر لگا دیا جاتا ہے حالانکہ ہم امن کو فروغ دینے کیلئے ہر ممکن اقدام اٹھا رہے ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ بھارت نہ جاتا تو الٹا اثر ہوتا، انہیں پروپیگنڈا کا موقع مل جاتا کہ پاکستان کو سارک سے بھی نکال دیا اور ہارٹ آف ایشیا سے بھی نکال دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اجیت دوول سے صرف اتنی بات ہوئی کہ اگر ایل او سی پر کشیدگی رہے گی تو بات چیت اور تعلقات کیسے بہتر ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ کشیدگی کے باوجود بھارت جانے کا فیصلہ درست تھا، بھارت نے مجھے ہوٹل سے باہر نہیں آنے دیا، بھارت نے سکیورٹی کے نام پر صحافیوں سے بات نہ کرنے دی جس کی وجہ سے یہاں واپس آ کر صحافیوں سے بات کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ نہ تو کانفرنس میں جاتے وقت پاک بھارت تعلقات میں کسی بریک تھرو کی توقع تھی اور نہ ہی ایسا کچھ ہوا۔سرتاج عزیز نے مزید کہا کہ مجھے 40 منٹ نہیں روکا گیا یہ خبر غلط ہے لیکن میڈیا کے ساتھ وہاں برا سلوک ہوا، مجھے سمجھ نہیں آئی کہ انہوں نے مجھے میڈیا سے بات کرنے سے کیوں نہ روکا۔ سرتاج عزیز نے مزید کہا کہ افغانستان کے ساتھ ہمارے تعلقات خراب نہیں ہوں گے، اس سلسلے میں بھارت کی کوششیں ناکام ہوں گی، ہمارے افغانستان کے ساتھ تعلقات بہت گہرے اور تاریخی ہیں۔مشیر خارجہ کا کہنا تھا کہ کسی ملک پر الزام تراشی کرنے سے امن نہیں آ سکتا۔ انہوں نے بتایا کہ کانفرنس کے دوران کسی اور کو ہوٹل میں داخلے کی اجازت نہیں تھی، بھارت میں سکیورٹی انتظامات تسلی بخش نہیں تھے۔ سرتاج عزیز نے کہا کہ کسی سے ملاقات کا نہیں کہا، مودی اور بھارتی حکام سے مصافحہ ہوا۔
سرتاج عزیز نے کہا کہ افغانستان کے اندر ایسے عناصر موجود ہیں جو وہاں دہشتگرد کارروائیاں کر رہے ہیں۔ سرتاج عزیز نے استفسار کیا کہ کشیدگی سے دونوں ملکوں میں سرمایہ کاری اور ترقی کیسے ہو سکتی ہے؟انہوں نے کہا کہ شرکت نہ کرتے تو کانفرنس سے نکالے جانے کا تاثر جاتا۔ سرتاج عزیز نے کہا کہ اشرف غنی کو بتایا ہے کہ بارڈر مینجمنٹ دہشتگردی کے خاتمے کے لئے ناگزیر ہے۔بھارت سے مذاکرات کے حوالے سے مشیر خارجہ کا کہنا تھا کہ مسئلہ کشمیر کے بغیر بھارت سے بات چیت کا کوئی فائدہ نہیں۔ انہوں نے استفسار کیا کہ کشمیر مسئلہ نہیں تو 7 لاکھ بھارتی فوج وہاں کیوں ہے؟ سرتاج عزیز نے کہا کہ بھارت میں انتخابات کی وجہ سے اگلے دو مہینوں میں سرحد پار سے تنا کم نہیں ہو گا۔