اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)پاک بحریہ نے پاکستانی سمندری علاقے میں بھارتی آبدوز کی موجودگی کا سراغ لگا کر انھیں اپنی سمندری حدود میں داخل ہونے سے روک دیا۔ترجمان پاک بحریہ کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ ‘پاک بحریہ کے فلیٹ یونٹس نے پاکستان کے سمندری علاقے کے جنوب میں بھارتی آبدوز کی موجودگی کا سراغ لگایا اور اس کی نقل و حرکت کو محدود کر دیا’۔مزید کہا گیا کہ ‘پاکستان نیوی نے بھارتی آبدوز کی اپنی موجودگی کو خفیہ رکھنے کی ہر کوشش کو ناکام بنا دیا، نیوی فلیٹ یونٹس نے آبدوز کا مسلسل تعاقب کیے رکھا اور اْسے پاکستانی پانیوں سے دور دھکیل دیا’۔ترجمان پاک بحریہ کا کہنا تھا کہ ‘مذموم عزائم کے حصول کے لیے ہندوستانی فوج کے ساتھ ساتھ بھارتی بحریہ بھی اپنی آبدوزوں کو پاکستان کے خلاف تعینات کر رہی ہے’۔ترجمان کے مطابق ‘یہ اہم کارنامہ پاکستان نیوی کی اینٹی سب میرین وار فیئر کی اعلیٰ صلاحیتوں کامنہ بولتا ثبوت ہے’۔بیان میں مزید کہا گیا کہ ‘پاکستان کی بحری سرحدوں کے دفاع کے لیے پاک بحریہ ہر لمحہ مستعد و تیار ہے اور کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے’۔بھارتی بحریہ کی جانب سے پاکستانی سمندری حدود کی خلاف ورزی کی کوشش ایک ایسے وقت میں کی گئی ہے جب لائن آف کنٹرول (ایل او سی) اور ورکنگ باؤنڈری پر بھی ہندوستانی افواج کی جانب سے سیزفائر معاہدے کی خلاف ورزیاں حالیہ کچھ عرصے سے ایک معمول بن چکی ہیں۔پاکستان اور ہندوستان کے تعلقات میں 18 ستمبر کو ہونے والے اڑی حملے کے بعد سے کشیدگی پائی جاتی ہے، جب کشمیر میں ہندوستانی فوجی مرکز پر حملے میں 18 فوجیوں کی ہلاکت کا الزام نئی دہلی کی جانب سے پاکستان پر عائد کیا گیا تھا، جسے اسلام آباد نے سختی سے مسترد کردیا تھا۔بعدازاں 29 ستمبر کو ہندوستان کے لائن آف کنٹرول کے اطراف سرجیکل اسٹرائیکس کے دعوے نے پاک۔بھارت کشیدگی میں جلتی پر تیل کا کام کیا، جسے پاک فوج نے سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہندوستان نے اْس رات لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کی اور بلااشتعال فائرنگ کے نتیجے میں 2 پاکستانی فوجی جاں بحق ہوئے، جبکہ پاکستانی فورسز کی جانب سے بھارتی جارحیت کا بھرپور جواب دیا گیا۔ان واقعات کے بعد حالیہ دنوں میں ہندوستان کے ہائی کمشنر اور ڈپٹی ہائی کمشنر کو دفتر خارجہ طلب کرکے سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزی پر احتجاج ریکارڈ کرایا گیا اور بھارتی سفارتکاروں سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اس بات کی یقین دہانی کرائیں کہ ان واقعات کی تحقیقات کی جائیں گی اور اس کی تفصیلات پاکستان کے ساتھ شیئر کی جائیں گ