سلام آباد (این این آئی)سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے ترک صدر رجب طیب اردوان کے دورہ پاکستان اور پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ ترکی کے صدر طیب اردوان کا دورہ پاکستان دیرینہ تعلقات کو مزید مستحکم کرنے میں معاون ثابت ہوگا ٗ عمران خان نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شرکت نہ کرکے اچھا فیصلہ نہیں کیا، مہمان صدر اس سے کیا تاثر لیں گے ۔ جمعرات کو قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سیّد خورشید شاہ نے کہا کہ ترکی پاکستان کا دیرینہ دوست ہے، شہید ذوالفقار علی بھٹو نے ترکی کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی بنیاد رکھی جو وقت کے ساتھ ساتھ مستحکم ہوتی چلی گئی۔ انہوں نے کہا کہ طیب اردوان نے اپنے خطاب میں اسلامی دنیا کے جذبات کی عکاسی کی، ان کی تقریر دل سے تھی جس سے امت مسلمہ کی ترجمانی ہوتی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ترک صدر کا خطاب اچھا تھا انہوں نے کہا کہ عمران خان نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شرکت نہ کرکے اچھا فیصلہ نہیں کیا، مہمان صدر اس سے کیا تاثر لیں گے، دنیا کے کام رکتے نہیں ، تحریک انصاف پارلیمنٹ کو اہمیت نہیں دے گی تو ان کو نقصان اٹھانا پڑے گا۔ جمعیت علمائے اسلام (ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے ترک صدر کے خطاب کوسراہتے ہوئے کہاکہ پاکستان تحریک انصاف نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے بائیکاٹ کر کے فتح اللہ گولن کا کر دارادا کیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ترکی نے بہت ترقی کی ہے ‘آج ترکی کے صدر نے جس واشگاف انداز سے کشمیر کے حوالے سے اپنا موقف سامنے رکھا ہے اس سے نہ صرف کشمیریوں بلکہ 20کروڑ پاکستانیوں اور امت مسلمہ میں خوشی کی لہر ڈورگئی ہے ۔انہوں نے کہا کہ ترکی اور پاکستان کے عوام اور حکومت کے تاریخی تعلقات ہیں آنے والے وقتوں میں یہ تعلقات مزید بہتر ہونگے
۔انہوں نے کہا کہ ترکی سکیولر ملک تھا جس نے طویل جدوجہد کے بعد اپنی شناخت اور اسلامی تعلیمات کو اجاگر کیا ۔انہوں نے کہا کہ ملک کے روشن مستقبل اور ترقی کے لئے حالات کا تقاضا ہے کہ ترکی ‘سعودی عرب اور دیگر برادر ممالک کے ساتھ تعلقات کو مزید مستحکم بنایا جائے ۔انہوں نے کہا کہ ترکی کے صدر طیب اردوان نے مغرب کے حوالے سے جس تشویش کا اظہار کیا ہے اس طرز کی تشویش ہمارے حکمرانوں کو بھی ظاہر کرنی چاہیے ۔انہوں نے کہا کہ ترکی کے صدر نے دور حاضر کے تمام چلینجز کے حوالے سے اپنے جذبات ‘احساسات پاکستان کی پارلمینٹ میں اجاگر کیے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان اور ترکی کے اہم معاملات پر ایک ہی سوچ ہے ‘ہم ترکی کے برادرانہ تعلقات اور ترکی صدر کے دورے کو خوش آمدید کہتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ترکی نے پاکستان کے ساتھ اقتصادی اور تعلیم اور دیگر شعبوں میں ملکر کام کرنے کی بات ہے ‘پاکستانی طالبعلموں کے لئے سکالرزشپ ‘پی ایچ ڈی پروگرام میں سکالرشپ دی گئی ۔انہوں نے کہا کہ 10سالوں کے دوران ترکی نے جس انداز سے معاشی ترقی کی ہے وہ سب کے لئے مشعل راہ ہے ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کو ترکی ‘چین ‘سعودی عرب سمیت دیگر شراکتداروں کو بھی ساتھ ملانا چاہیے ۔پی ٹی آئی کی جانب سے بائیکاٹ کے اعلان کے سوال پر مولانا فضل الرحمان نے مسکراتے ہوئے کہا کہ عمران خان پاکستان کے فتح اللہ گولن ہیں ۔گورنر پنجاب محمد رفیق رجوانہ نے ترک صدر رجب طیب اردوان کے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کو سراہتے ہوئے کہا کہ ترکی پاکستان کا اہم دوست ہے۔
انہوں نے کہا کہ طیب اردوان سچا اور کھرا مسلمان ہے، ترکی کو جمہوریت کی راہ پر گامزن کرکے اپنے ملک کی معیشت کو جتنا استحکام انہوں نے دیا پاکستان سمیت دیگر دنیا کیلئے یہ اپنی مثال آپ ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کیلئے ترکی کی ترقی ایک رول ماڈل ہے، دونوں ملکوں کے عوام ایک دوسرے کیلئے خیرسگالی اور بھائی چارے کے جذبات رکھتے ہیں، مستقبل میں یہ تعلقات مزید آگے بڑھیں گے۔وفاقی وزیر ہاؤسنگ اینڈ ورکس اکرم درانی نے کہا کہ پاکستان اور ترکی کے پرانے اور گہرے تعلقات ہیں جنہیں الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا ۔انہوں نے کہاکہ اگر پاکستانی شہری ترکی جائیں اور وہاں کے لوگوں سے ملیں تو انھیں اس وقت پتہ چلے گا کہ ترکی کے لوگ پاکستانیوں سے کتنی محبت کرتے ہیں ‘اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ دونوں ممالک کے عوام ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں ۔انہوں نے کہاکہ تاریخ گواہ ہے کہ اگر پاکستان پر کوئی مشکل وقت آیا ہے تو اس میں ترکی کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا پایا اور اسی طرح اگر ترکی پر کوئی مشکل گھڑی آئی تو اس وقت پاکستان ترکی کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہوا ۔انہوں نے کہاکہ آج اگر یہاں سے اتحاد اور اتفاق کا پیغام جاتا تو اس کا بہت اثر رہتا ۔متحدہ قومی موومنٹ کے ایم این اے علی رضا عابدی نے کہا کہ ترکی پاکستان میں تعمیر و ترقی کے میگا پراجیکٹس میں دلچسپی سے حصہ لے رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ سیاحت کے فروغ کے لئے ترکی کے ساتھ اعلی سطحی وفود کا تبادلہ ہونا چاہیے تا کہ دونوں ممالک کے عوام ایک دوسرے ملک کی سیاحت کو قریب سے دیکھ سکے ۔انہوں نے کہا کہ ترکی کے ساتھ پاکستان کی پائیدار دوستی ہے ‘اس دوستی کو ہر فورم پر اجاگر ہونا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ جسطرح اس وقت بھی دونوں ممالک ملکر مختلف شعبوں میں کام کر رہے ہیں اسی طرح آنے والے وقتوں میں بھی کام جاری رہے گا۔
انہوں نے کہا کہ ترکی میں جہموریت کے حوالے سے گذشتہ دنوں جو عوامی جدوجہدسامنے آئی ہے اس سے ثابت ہوگیا ہے کہ ترکی کے عوام بھی جمہوریت چاہتے ہیں ‘حالیہ فوجی بغاوت کے بعد اس جمہوری حکومت کو بعض سخت فیصلے بھی لینے ہوگے جس سے یہ تاثر ملے گا کہ سیاسی آمریت ہے لیکن آنے والے وقتوں کے ساتھ ساتھ وہاں جمہوریت مزید مستحکم ہوگی ۔پاکستان مسلم لیگ ن کی رکن قومی اسمبلی مائزہ حمید نے کہا کہ ترکی پاکستان کا دوست ملک ہے ‘ ترکی نے پنجاب میں بہت بڑے بڑے منصوبے لانچ کیے ہیں اور دوسری طرف ہمارے ساتھ چین کھڑا ہے ۔انہوں نے کہا کہ یہ انتہائی شرمناک بات ہے کہ خود کو ملک کی بڑی سیاسی پارٹی کہلاوانے والی پی ٹی آئی نے ایک مرتبہ پھر ملکی مفادات کو پس پشت ڈال کر ذاتی مفادات کو ترجیحی دی اور پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ۔انہوں نے کہا کہ ترکی کے ساتھ پاکستان تعلقات ہر آنے والے دن مستحکم ہورہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ آج 20کروڑ عوام ترکی کے صدرطیب اردوان کو خوش آمدید کہتے ہیں ۔پختونخواہ عوامی ملی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ ترکی کے صدر طیب اردوان کا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں خطاب تاریخی تھا ۔انہوں نے کہا کہ ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کا خطاب تاریخی تھا ۔پاکستان اور ترکی کے تعلقات دیرینہ ہیں۔انہوں نے کہا کہ ترکی کے صدرطیب اردوان کے دورہ پاکستان پر پوری قوم خیر مقدم کر رہی ہے ۔سینٹ کی قائمہ کمیٹی دفاعی پیداوار کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم نے کہا کہ پاکستان‘ ترکی‘ ایران‘سعودی عرب اور دیگر دوست ممالک سے ملکر خطے میں امن سلامتی اور استحکام کیلئے اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ داعش‘طالبان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی ہی انھیں فنڈنگ مسلم ممالک سے ہورہی ہے اور ان کے پاس جو اسلحہ ہے وہ بھی مسلم ممالک میں تیار ہونے والا نہیں ہے ۔انہوں نے کہا کہ اسلامی ممالک ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو جائیں تو بہت سے مسائل حل ہوجائیں گے ۔ وزیر مملکت و چیئرمین نجکاری کمیشن محمد زبیر نے کہا کہ ترکی کے عوام نے جب یہ فیصلہ کر لیا کہ سیاسی عمل میں ہی ان کی بہتری ہے تو انہوں نے ایک مثال قائم کرتے ہوئے فوجی بغاوت کو کچل دیا ‘ٹینک اور جہاز بھی عوام کو نہیں ڈرا سکے ۔انہوں نے کہا کہ خدا نہ کرے پاکستان میں ایسا کوئی واقعہ پیش آئے ‘اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ پاکستان کی فوج غیر سیاسی ہے اور پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں ‘سول سوسائٹی اور 20کروڑ عوام جہموریت کی حامی ہیں ۔انہوں نے کہا کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ملکی مفادات کے امور پر بلائے گئے، پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاسوں کے بائیکاٹ کی راوئیت ڈالی جار ہی ہے‘ اختلافات ہر جگہ ہوتے ہیں
لیکن جب ملکی مفادات سامنے ہو تو اس وقت کوئی اختلاف نہیں رہتا سب ایک ہو کراتحاد کا پیغام دنیا کو دیتے ہیں ۔سینیٹر رحمن ملک نے کہا کہ آج ترکی کے صدر نے جس انداز سے مسئلہ کشمیر پر اپنا موقف بیان کیا ‘بھارتی بربریت اور ظلم کو اجاگر کیا وہ قابل تحسین ہے ۔انہوں نے کہا کہ حکومت کی یہ اچھی کوشش تھی کہ برادر ملک کے سربراہ کے دورہ پاکستان کے موقع پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کیا گیا ہے‘ باقی برادر ممالک کے سربراہان کو بھی پاکستان کے دوروں کی دعوت دینی چاہے۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی جانب سے بائیکاٹ کا فیصلہ غلط سیاسی فیصلہ تھا ‘آج اتحاد کا پیغام جانا چاہتے تھا جو ایک پارٹی کی وجہ سے نہیں جاسکا۔ خیبر پختونخوا کے گورنر اقبال ظفر جھگڑا نے وزیراعلی کے پی کے اور پی ٹی آئی کے بائیکاٹ کے سوال کے جواب میں کہا کہ یہ پارٹی قیادت کا فیصلہ تھا ‘پارٹی قیادت کو بھی چاہیے کہ وہ فیصلہ کرنے سے پہلے دیکھ لیں کہ فیصلہ کیا کرنے جارہے ہیں ‘
ایسے فیصلے جمہوریت کے حق میں بہتر نہیں ہوتے ۔انہوں نے کہا کہ یہ غلط روائیت بن رہی ہے کہ اہم قومی ایشوز پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے بائیکاٹ کیا جائے ۔سینیٹر مشاہد اللہ نے کہاکہ ترک صدر طیب اردوان نہ صرف ایک مدبر سیاسی قائد ہیں بلکہ وہ ایک دانشور ‘شاعر اور انقلابی لیڈربھی ہیں ۔انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان افغانستان تعلقات کے خراب کرنے کے لئے جو جو غلط فہیماں پیدا کیں گئیں ہیں انھیں اب دور کرنے کا وقت ہے ۔ سینیٹر مشاہد اللہ نے کہا کہ عمران خان کو ترکی کے صدر طیب اردوان کی آمد پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے بائیکاٹ کے فیصلے پر پارٹی کے اندر بھی شدید مخالفت کا سامنا رہا ‘آج صبح پھر پی ٹی آئی کا اجلاس ہوا اور عمران خان نے ترکی کے سفیر سے بھی ملاقات کی جس کے بعد ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ عمران خان اپنا فیصلہ واپس لے لیں گے لیکن ایسا نہیں ہے ‘ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ پورے ملک کا نمائندہ اور سپریم فورم ہے۔