اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) سینئر صحافی رؤف کلاسرا نے اپنی کتاب’’ ایک سیاست کئی کہانیاں‘‘ میں اہم انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ سینئر سیاستدان چوہدری نثار کی سیاسی زندگی میں ایک واقعہ ایسا بھی آیا تھا جب وہ یہ فیصلہ کر چکے تھے کہ وہ مسلم لیگ (ن) چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر لیں گے۔ تفصیل کے مطابق سینئر صحافی رؤف کلاسرانے اپنی کتاب میں انکشاف کیا کہ 12 اکتوبر 1999 ء کو جب جنرل مشرف نے مارشل لاء لگایا تو چوہدری نثار اپنے گھر میں نظر بند تھے۔ اس وقت جنرل مشرف انہیں اپنے ساتھ
ملانے کیلئے کوششیں کر رہے تھے۔ جنرل مشرف کی طرف سے چوہدری نثار کو پاکستان مسلم لیگ (ق) کا صدر اور ملک کا وزیر اعظم بنانے کی پیش کش بھی کی گئی تھی۔ اس وقت مسلم لیگ (ن) کے اہم رہنماؤں کی جانب سے چوہدری نثار کے کردار پر انگلیاں بھی اٹھائی جا رہی تھیں کیونکہ جنرل مشرف کو آرمی چیف بنوانے میں چوہدری نثار کا اہم کردار تھا اور یہ کہا جا رہا تھا کہ چوہدری نثار جنرل مشرف سے جا ملے ہیں۔ کلثوم نواز نے بھی چوہدری نثار کی پی ایم ایل این سے وفاداری پر سوالات اٹھائے تھے۔ اس وقت نواز شریف نے بھی چوہدری نثار سے متعلق پھیلائی جانیوالی باتوں پر یقین کر لیا تھا کیونکہ چوہدری نثار اور پرویز مشرف گزشتہ 30 سالوں سے دوست تھے۔ رؤف کلاسرا کے مطابق نواز شریف کی رہائی کے بعد چوہدری نثاراور
نواز شریف کے تعلقات اس نہج پر پہنچ گئے تھے کہ چوہدری نثار نے سیاست کو خیر باد کہنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ چوہدری نثار کو چند ساتھیوں نے فیصلہ تبدیل کرنے پر مجبور کیا تو وہ یہ سوچنے لگے کہ کس پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑیں؟ اس کے بعد چوہدری نثار نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ پاکستان پیپلز پارٹی جوائن کر لیں گے اور اس سلسلے میں بینظیر بھٹو کی قریبی ساتھی اور اپنی فیملی فرینڈ آمنہ پراچہ کے ذریعے انہوں نے خفیہ طور پر پیپلز پارٹی سے بات چیت بھی شروع کر دی تھی۔